بارھویں ہجری میں قدیم شرقپور شریف کے جن بزرگوں علما اصفیا نے ملت اسلامیہ کی گراں قدر سماجی، تدریسی اور دینی خدمات انجام دیں ان میں حضرت حافظ محمد اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ بڑی عزت اور مرتبے والے بزرگ تھے۔ آپ کی شخصیت علم و روحانیت کے امتزاج کا حسین نمونہ تھی۔
انسانیت کو جہالت اور گمراہی سے بچانے کے لیے آپ کی بے لوث جدوجہد تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایسے درمند حضرات خال خال ہوتے ہیں۔ جن کے دلوں میں ہمیشہ ملت کی خیر خواہی کا جذبہ موجزن ہو۔ حافظ محمد اسحٰق کا نمونہ عمل یہی تھا۔ اللہ کی شب و روز عبادت اور انسانیت کی بے لوث خدمت آنیوالی نسلوں کے لیے یہ بہترین نمونہ اور سبق ہے۔
حافظ محمد اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ ولادت کا زمانہ تذکرہ شیخ الاسلام حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحب کی ایک عبارت سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت حافظ محمد اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا ایک سو پچیس (125) سال کی عمر میں 1188ھ ذی الحج بطابق 1775 عیسوی کو وفات پائی۔ اگر ان کی سن وفات سے ان کی ٹوٹل عمر منہا کردی جائے تو ان کی سن ولادت برآمد ہوگا۔
سال وفات = 1188 ہجری
ٹوٹل عمر = 125 سال
-------------------------
سال پیدائش = 1063 ہجری بطابق 1653 عیسوی
حافظ محمد اسحٰق حافظ شیخ محمد قائم کے ہاں چوٹاہلہ ضلع ساہیوال میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر میاں مقصود احمد جو کہ شیخ محمد قائم کی اولاد میں سے ہیں وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حافظ محمد اسحاق جو کہ شیخ محمد قائم کے بیٹے تھے انہوں نے شرقپور کی بنیاد رکھی۔ ان کے مطابق شیخ محمد قائم اس علاقہ میں 1757 عیسوی میں شاہ جہاں بادشاہ کی اجازت کے ساتھ آئے اور شرقپور کی بنیاد رکھی۔ لیکن شاہ جہاں بادشاہ کا دور حکومت 1628 عیسوی تا 1658 عیسوی تھا۔ اور یہ بات واضع ہے کہ جب شیخ محمد قائم اس علاقہ میں شرقپور کی بنیاد رکھنے آئے تو اس وقت حافظ محمد اسحاق کو بہت نوجوان ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ بھی حافظ محمد جمال (بانی شرقپور) کی قبر پر ان کی جو تاریخ وفات لکھی ہے وہ 1763 عیسوی ہے۔ اس صورت حال میں حافظ محمد جمال ( 105 = 1658 - 1763) یعنی 105 سال کی عمر پائی۔ اور یہ بات بھی محقق ہے کہ حافظ محمد جمال نے کل 125 سال کی عمر ہی پائی تھی ۔ لہذا اب ہم آسانی سے کہ سکتے ہیں کہ جب حافظ محد جمال شرقپور میں بانی شرقپور بن کر آئے وہ تقریبا 20 سال کے نوجوان تھے۔ اور حافظ محمد اسحٰق ان کے بعد میں تشریف لائے۔
حضرت حافظ محمد اسحٰق کے جد امجد کا نام حضرت محمد سعید حضوری تھا۔ آپ کا خاندان شروع سے ہی دینی اور مذہبی خدمت کا خوگر تھا۔ آپ کے والد اپنے زمانہ کے روشن ضمیر عالم اور صوفی بزرگ تھے۔ حافظ محمد اسحٰق کے دوسرے بھائی کا نام حافظ محمد یعقوب تھا۔ دونوں بھائیوں نے اپنے والد ماجد حضرت شیخ محمد قائم سے قرآن مجید حفظ کیا اور متدادلہ علوم و فنون حاصل کیے۔ حافظ صاحب حجرہ شاہ مقیم میں حضرت شاہ امیر قادری حجروی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔
ساہیوال کے علاقہ چونیاں میں وٹو قوم آباد تھی۔ یہ لوگ فتنہ پرور تھے۔ چوری کرنا اور راہ گیروں کو لوٹ لینا ان کا مشغلہ تھا۔ ان کی انہیں کارستانیوں کی بنا پر چنڈوروں سے ٹھن گئی۔ اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ دونوں قوموں میں زبردست قتال ہوسکتا ہے۔ ان کے تصادم میں بھلے مانس اور شریف لوگ بھی نقصان اٹھا سکتے تھے۔ لہذا حافظ محمد قائم بچوں کے ہمراہ شرقپور کے علاقہ میں آگئے اور یہیں آباد ہوگئے۔
حافظ محمد اسحٰق اور ان کے والدین کا شرقپور میں آنے کا ایک سبب تو یہ تھا دوسرا سبب یہ ہے جو میاں محمد عاشق نے اپنی تصنیف "تاریخ شرقپور" میں لکھا ہے، کہ حافظ محمد قائم نے شاہجہان کو درخواست دے رکھی تھی کہ انہیں بھی کنارہ راوی اور نواح لاھور میں جگہ دی جائے جہاں بادشاہ معظم کوئی بستی بسانا چاہتے ہیں۔
چنانچہ ان کی درخواست قبول ہوئی اور انہیں یہاں کچھ رقبہ مل گیا۔ حافظ محمد اسحٰق کا شرقپور میں آنے کا خواہ کوئی بھی سسب باعث ہو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کی آمد بھی اسی دور میں جبکہ یہ بستی آباد ہورہی تھی۔
ٹاہلی والی مسجد کی بنیاد اور تعمیر اور پھر اس مسجد میں دینی مدرسے کے قیام کا سہرا اس خاندان کے سردکھائی دیتا ہے۔ ان بزرگوں کے علم وفضل کا اعتراف ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ شرقپور کے ابتدائی آبادکاروں کے بچے ان کے حلقہ تدریس میں زنوائے تلمذتہہ کرکے بیٹھتے رہے ہیں۔
شرقپور کے مشہور بزرگ اور صاحب کرامت ولی حضرت حافظ سید بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے دو دوسرے بھائی حضرت بابا سید جیون شاہ صاحب اور حضرت بابا سید محمد انور شاہ صاحب اپنی چھوٹی عمر میں حافظ محمد اسحاق کے ہاں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے اور ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
حافظ محمد اسحٰق کا وصال 1188ھ میں ذی الحجہ کے مہینے بطابق 1775 عیسوی میں ہوا۔ انہیں عیدگاہ والے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ یہ قبرستان شرقپور میں گھاٹ سٹاپ اور چونگی سٹاپ کے قریب ہے۔ اور ایک جانب سے اس کو محلہ چراغاں والی گلی بھی لگتی ہے۔ حضرت حافظ محمد اسحٰق رحمتہ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر ایک شاندار گنبد صاحبزادہ حضرت میاں مقصود احمد صاحب کے اہتمام سے تعمیر کیا گیا ہے اور ہر سال نومبر کے مہینے میں ان کی یاد میں اور ایصال ثواب کی خاطر عرس مبارک کی دو روزہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
ماخوذ : "تاریخ مطالعہ نقوش شرقپور" از ماسٹر انور قمر صاحب (مرحوم)
"تاریخ شرقپور" از میاں محمد عاشق