انور عباس انور صاحب جن کی ساری عمر صحافت کرتے اور خوبصورت خیالات اور احساسات کو لفظوں میں ڈاھل کر قلم کے زریعے اخباروں کی زینت بناتے گزر گئی ہے اور وہ اب بھی اس مشن میں کسی کہنہ مشک اور جفا کش لکھاری کی طرح جتے ہیں اور روزانہ ان کا ایک آدھ کالم پڑھنے کو مل جاتا ہیں۔ علم و تجربہ کے سمندر کی یہ پیاس ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ ان کا اس فیلڈ میں تجربہ کئی دیہایوں پر مہیت ہے۔ انہوں نے مجھ بندہ ناچیز کو اپنی رائے دینے کے لیے یہ سوال رکھ دیا کہ
آپ اس بارے کیا رائے رکھتے ہیں کہ افواج ،عدلیہ اور بیوروکریٹس کو پارلیمنٹ کا احترام کرنا چاہیے؟ یا آئے دن آئین کو معطل کرنے کی روش کو پاکستان کے مفاد میں خیال کرتے ہیں؟
میں گو کہ خود کو نہ تو صحافی گردانتا ہوں اور نہ جرنالزم میری فیلڈ ہے میری فیلڈ کمپیوٹر سائنس ہے اور میں اس کا سٹوڈنٹ ہوں لیکن شوق کی خاطر علم کی پیاس کو بجانے کے لیے کبھی کبھی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کچھ ذہن میں آتا ہے تو ایک آدھ کالم لکھ دیتا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ ان کے اوپر والے سوال کا جواب میں شاید وضاحت سے بیان نہ کرسکوں اس لیے میری قارعین سے گزارش کہ مجھ ناچیز کو طفل مکتب سمجھ کر اگنور کردیں۔
ان کے سوال کو سمجھنے کے لیے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب ادارے چاہے وہ افواج پاکستان ہو، عدلیہ ہو یا بیوروکریٹس ہوں وہ پارلمینٹ کا احترام کیوں کریں؟ کیوں کہ ان اداروں کے افراد خود کو بھی دوسرے اداروں سے کم محب وطن نہیں سمجھتے بلکہ افواج تو خود کو دوسروں سے زیادہ محب وطن سمجھتی ہیں۔ اور پھر ایک عام تاثر یہ بھی ہوتا ہے کہ فوج کا ایک جنرل لوہے کی طرح ایک بھٹی میں تپ کر کہنہ مشک بن کر جنرل بنتا ہے اور تعلیم و تربیت اور تجربے میں وہ کسی سے کم نہیں ہوتا کیوں کہ وہ نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں طے کرتا ہوا اس پوزیشن تک پہنچا ہوتا ہے۔ تو پھر وہ کیوں کر ایک پارلمنٹرین یا پارلیمنٹ کی عزت کرے کہ جس میں کوئی بھی ان پڑھ یا خاندان یا برداری کی طاقت پر ووٹ لیے کر یا پھر دھاندلی کرکے یا پھر پیسہ لگا کر پاور میں آنے والا شخص لوگوں پر حکومت کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑایں تو اس ملک میں جمہوریت سے زیادہ فوج نے اس ملک میں حکومت کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس ملک میں پارلمینٹ کو بحثیت ایک ادارہ وہ طاقت یا اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ اس ملک میں پارلمینٹ اور گاوں میں لگنے والی پنچایت میں کوئی فرق نہیں جس میں گاوں کا چوہدری یا وڈیرہ فیصلے کرتا ہے اور باقی سب سرجھکا کر اس کی بات سنتے ہیں۔ پاکستان میں ادارے یا پارلمینٹ اس لیے مضبوط نہیں ہوسکے کہ ہم نے ان کو شخصیات اورینٹڈ بنا دیا ہے جو ایک ہی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ بحثیت ادارہ اس کی اپنی کوئی حثیت نہیں۔ اگر آپ موجودہ دور میں میاں نواز شریف کی پچھلے 4 چار سال کی حاظری کو مدنظر رکھ لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کتنے دن پارلیمنٹ میں حاظر ہوئے ہیں۔ اور ان کی نظر میں پارلیمنٹ کی کیا حثیت ہے۔ میاں صاحب تو صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے ان کی زیادہ تر پریس کانفرنسوں میں وہ آتے ہیں اور اپنا بیان دے کر چلتے بنتے ہیں اور صحافی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ان سے سوال کیا کریں۔ اگر کبھی آپ کو ایسا موقع دیکھنے کو مل بھی جائے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میاں صاحب کے چند پسندیدہ صحافی جن میں سے کچھ خود کو قلم کار کہنے والے علم سے نابلد لفافہ صحافی شامل ہوتے ہیں وہاں موجود ہوتے ہیں جو ایسے سوال کرتے ہیں جس سے میاں صاحب کو خوش کیا جاسکے اور ان کی خوش آمد کی جاسکے۔ جب یہ ایک پریس کانفرنس کا حال ہو تو کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ ایسا پارٹی سربراہ پارلمینٹ میں آکر سوالوں کا جواب دے گا یا امریکہ یا یورپ کی طرح ٹی وی پر بیٹھا اپوزیشن لیڈر سے مباحثہ کررہا ہوگا۔ المیہ تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے جتنے سیشن ہوتے ہیں اور جب کبھی وہاں بحث ہوتی ہے اسمبلی کا سپیکر بھی اپنی پارٹی کا دفاع کررہا ہوتا ہے جبکہ اس کا کام غیر جانبدار رہ کر پارلمینٹ کی سربراہی کرنا ہوتا ہے۔ اور یہی حال نیشنل اسمبلی ، سندھ اسمبلی اور دیگر صوبوں کی اسمبلیوں کا ہے۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ کیا ہوگا کہ سینٹ کمیٹی کئی بار اس ملک کے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو کہہ چکی ہے کہ وہ ایل این جی کا کنٹریکٹ لا کر سینٹ میں پییش کریں اور وہ ہر دفعہ اس کو گول کرجاتے ہیں اس لیے کہ ان کی نظر میں سینٹ یا پارلمینٹ کی کوئی حثیت نہیں۔ اور یہ مبینہ طور پر اس کنٹریکٹ میں کرپشن میں ملوث ہیں ورنہ وہ ایسے ہیلے بہانے نہ کرتے۔
اس ملک کی تینوں بڑی جماعتوں میں ان کی تمام سیاست شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔
اس ملک میں پارلمینٹ تب تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک اس ملک میں صیح معنوں میں جمہوری پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں پھلتی پھولتی۔ وہ چاہے ن لیگ ہو، چاہے پی پی پی یا پاکستان تحریک انصاف یا دیگر تمام سیاسی پارٹیاں ہر پارٹی کی جمہوریت صرف شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان پارٹیوں کو ان خاندانوں اور شخصیات سے باہر نکلنا ہو گا۔ گو کہ پی ٹی آئی نے آکر ن لیگ اور پی پی پی کی خاندانی جمہوریت ہر سوالات اٹھائے ہیں مگر میرے ذاتی خیال کے مطابق خود پی ٹی آئی میں ابھی جمہوریت پروان نہیں چڑھی، اس پارٹی کا سارا مظہر عمران خان کی شخصیت ہے اگر پارٹی میں سے عمران خان کو نکال دیں تو باقی پارٹی یوں بیٹھ جائے گی جیسے غبارے میں سے ہوا نکلتی ہے۔ اور یہی حال پی پی پی کا ہے گو کہ پی پی پی میں دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ تجربہ کار اور سینئیر سیاست دان موجود ہیں مگر ان کی تمام تجربہ کاری اور سیاست کو بھی ایک اس نوجوان کے آگے چب لگ جاتی ہے جس کو ایک پپٹ پارٹی سربراہ بناکر آگے کیا گیا ہے جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں وہ لکھی ہوئی تقریریں کرتا ہوں اور پارٹی کو اصل میں اس باپ اور پھوپھو چلا رہی ہے۔ اور یہ لوگ ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قبروں پر سیاست کررہے ہیں۔
ان سیاسی پارٹیوں کو بحثیت ایک تنظیم یا اداراہ کے مظبوط ہونا پڑے گا اور پارٹی کے آئین اور انٹرا الیکشن کو فیئر طریقے سے نافذ کرنا ہوگا چاہیے اس میں خاندانی سیاست اور شخصیات کا خاتمہ ہوتا ہو۔ اگر آپ کا اپنا گھر ٹھیک نہیں ہو گا تو پھر دوسروں سے یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ پر انگلی نہیں اٹھائیں گے اور یہی کچھ اس ملک میں ہوتا آیا ہے ۔ اس ملک میں پارلیمنٹ پر اس لیے شب خون مارے گئے ہیں کہ اس ملک میں کبھی جمہوریت تھی ہی نہیں۔ یہاں جمہوریت کے نام پرصرف کچھ خاندانوں نے حکومت کی ہے۔ اور ان کی ساری جمہوریت کا محور اپنا خاندان ہوتا ہے کہ اس کو کیسے کرپشن کے زریعے ترقی دینی ہے ان کو اس ملک کی ترقی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
ایسی تمام صورت حال میں آپ کیونکر توقع کرسکتے ہیں کہ افواج، عدلیہ یا بیوروکریٹس اس پارلیمنٹ کی عزت کریں گے۔