ولینٹائن ڈے جسے سینٹ ویلنٹائن ڈے یا سینٹ ویلنٹائن کی دعوت کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کا مقبول ترین دن ہے اس دن کو ایک اندازے کے مطابق 62 فیصد کے قریب امریکی مناتے ہیں۔ اور اس دن کے موقع پر وہ اپنی گرل فرینڈز اور بیویوں کو پھول، کارڈز، کیڈیز، چاکلیٹ اور دوسرے تحفے تحائف دیتے ہیں اور ان کو گھر سے باہر ڈیٹ پر لیے کر جاتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی تاریخ رومن کے شروع کے ادوار جس میں منائے جانے والے ایک تہوار لوپرکیلیا سے ملتی ہے جو کہ فروری کے مڈ میں منایا جاتا تھا۔
بعد میں کریسچن چرچ نے مڈ فروری کے اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کا دن کا نام دے کر اس کو عیسائیت کے ایک تہوار کے طور پر اس کو عیسائیت میں شامل کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سینٹ ویلنٹائن کون تھا۔ اس کے بارے میں تاریخ میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ کے یہ کون تھا کب پیدا ہوا اور کب فوت ہوا ۔ اس کے علاوہ بھی عیسائیت کی تاریخ میں ایک سے زیادہ ویلنٹائن کے نام سے عیسائی علما یا پادری گزرے ہیں۔ ان میں سے ایک کو رومن بادشاہ کلاڈیس دوئم جس نے شادی کرنے پر اس لیے پابندی لگا دی تھی کہ ایک غیر شادی شدہ رومن زیادہ اچھے طریقے سے جنگ میں لڑ سکتا ہے۔ اس بادشاہ کلاڈیس کے زمانے میں اس سینٹ ویلنٹائن کو بادشاہ کے حکم کے خلاف غیر فطری طریقے سے اجماع اور خفیہ طور پر شادیاں کروانے کی وجہ سے سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں عیسائیت کے پوپ جیلیسیس نے سینٹ ویلنٹائن کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے 14 فروری کو منانے کا اعلان کیا۔ 1300 صدی عیسوی تک 14 فروری کا یہ دن محبت اور رومانس سے منسوب نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کے لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ 14 فروری کا دن پرندوں کے میٹینگ سیزن (ایسا سیزن جب نر جانور اور پرندے مادہ سے ملتے ہیں۔) کے آغاز کا دن ہے۔ ویلنٹائن ڈئے کی سب سے پہلے مبارکباد 15 صدی عیسوی میں دی گئی۔ 17ویں صدی تک برطانیہ میں لوگوں نے اس دن کو ایک روایتی دن کے طور پر منانا شروع کردیا تھا۔ جسں میں یہ لوگ آپس میں پھولوں، خطوں اور کارڈز کا تبادلہ کرتے تھے۔ اس کے بعد اس کو امریکہ میں بھی اپنا لیا گیا۔ ویلنٹائن ڈئے کی مناسبت سے سب سے پہلے کارڈوں کی پرنٹگ یا چھپوائی 1840 عیسوی میں ہوئی،۔ اس کے بعد اس کو ایک بڑے صارفین کی چھٹی کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ موجود دور میں لوگ اس دن کے موقع پر کوئی ایک بلین کے قریب کارڈز ہر سال ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کرسمس کے بعد سب سےزیادہ منایا جانے والا دن بن چکا ہے۔ اگرچہ اس دن سرکاری طور پر چھٹی نہیں ہوتی۔ ایک اندازے کے مطابق اس دن 35 ملین سے زیادہ دل کی شکل کے بنے ہوئے چاکلیٹ کے باکس فروخت ہوتے ہیں۔ اور کوئی 220 ملین کے قریب پھولوں اور ان کے گل دستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ صرف اس ایک اکیلے دن امریکی 20 ملین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ جس کی ایوریج ایک سال کے لیے 130 ڈالر پر پرسن بنتی ہے۔ زیادہ تر امریکی پھولوں اور چاکلیٹ پر پیسے خرچ کرتے ہیں جبکہ 20 فیصد کے قریب انگوٹھیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ جو تقریبا 4 بلین ڈالرز سالانہ بنتے ہیں۔ ایک تازہ سروے کے مطابق اس دن کوئی 6 ملین جوڑے منگنی کرتے ہیں۔
پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کو 1990 کے آخر میں ٹی وی اور ریڈیو کے سپیشل پروگرامز کے زریعے متعارف کروایا گیا تھا۔
جس پر سیاسی جماعت اسلامی نے اس پر پابندی لگانے کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ دن شہری علاقوں میں خصوصا نوجوانوں میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔ اور اس دن کارڈز کی چھپائی اور سیل اور پھولوں کی سیل بڑھ جاتی ہے۔ 2016 میں پشاور کی لوکل گورننگ باڈی نے اس دن پر سرکاری طور پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی پشاور کے علاوہ دوسرے علاقوں جیسے کوہاٹ وغیرہ میں بھی نافذ تھی۔ 13 فروری2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس دن کو پبلک مقامات پر منانے پر پابندی لگا دی۔ اور کورٹ کے اسی آرڈر کو اس سال 2018 میں بھی نافذ العمل رکھا گیا ہے۔ اس کے لیے پیمرا کے آرڈر نمبر
(13(89)/OPS/2016)
جو 7 فروری 2018 کو ایشو ہوا کے مطابق تمام سٹیلائیٹ چینلز، ایف ایم ریڈیوز، پرنٹ میڈیا مالکان اور دوسرے میڈیا ڈسٹریبوٹرز کے لائسنس رکھنے والوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ عدالت کے حکم پر اس دن کو کسی بھی پبلک مقام پر آفیشل لیول پر نہیں منائیں گے۔
ویلنٹائن ڈے ایک ایسا دن ہے جو مغربی کلچر اور معاشرے میں اس لیے مقبول ہے کہ وہاں شادی کرنے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے اور ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد شادی کے بغیر رہتی ہے۔ اور وہ اس دن اپنے پارٹنر کو اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے پھول، گل دستے اور تحفے تحائف دیتے ہیں۔ اور یہی کلچر اب ہمارے معاشرے میں خصوصا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سرایت کررہا ہے جو کہ نوجوان نسل کو تباہ کرنے میں ایک قلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ یہ دن نا تو ہمارے کلچر اور معاشرے سے سے مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہماری اسلامی قدروں سے۔ اس لیے اس دن کو نہیں منایا جانا چاہیے۔ آپ کو اپنے پیاروں سے اپنی محبت کا اظہار کرنے لیے سال میں ایک دن کی ضرورت نہیں۔