ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی جسے دنیا البیرونی کے نام سے بھی جانتی ہے ایک عظیم مسلم سائنسدان تھا۔ انہوں نے سائنس، تاریخ، جغرافیہ، فلکیات، طبیعات، فلسفہ اور کئی دوسرے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے اپنے کام کے ساتھ ساتھ وہ کام جو انہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کرکیے اس سے انہوں نے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے حتیٰ کے یونانی، شامی اور ممنکہ طور پر سنسکرت زبانیں بھی سیکھیں اس کے علاوہ ان کو عربی اور فارسی زبانیں بھی آتی تھیں۔ ان کی قیاس آرائیاں اور مشاہدات آج بھی جدید سائنس میں اپنی گرفت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے ریاضیاتی مسائل اور الجھنوں کو حل کیا یہاں تک کہ بہت سے علاقوں کے طول بلد اور عرض بلد کا تعین کیا۔ جس کو آج گوگل میپ (نقشے) آئن لائن کسی علاقے کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی نوعمری میں 990 عیسوی میں البیرونی نے کیتھ شہر کا طول بلد دریافت کرلیا تھا۔ انہوں نے کچھ ایسے آلات ایجاد کیے جن کے زریعے انہوں نے زمین کے مدار کو ناپہ اور مختلف دھاتوں کی کشش ثقل کا تعین کیا۔ اس کے علاوہ ان کو دنیا بھر کے مختلف علاقوں کی ثقافت، رسم ورواج، ادب اور مذاہب کے علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ کیونکہ ان کو اپنے سرپرستوں کے ساتھ مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا جس نے انہیں اس چیز میں مدد دی کہ وہ ان پر جلدوں میں کتابیں لکھ سکیں خاص طور پر انڈیا کے بارے میں ان کتابوں کو ان جگہوں کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی کتابوں کے مضوعات ایک ایک منٹ کی وضاحت پر مشتمل تھے جو کہ ان کے کسی بھی چیز کے بارے میں گہرے مطالعے کی نشاندہی کرتے تھے۔ یہ اپنے وقت کے ان سائنس دانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے وقت سے بہت آگے کے بارے میں سوچا۔ یہ ان چند سکالر میں سے ہیں جن کو سویت سائنس مورخین نے دوبارہ ریسرچ کے لیے بحال کیا۔ انہوں نے دسویں صدی میں بہت سے موضوعات جن میں ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام "البیرونی کریٹر" رکھا گیا ہے۔
وہ 15 ستمبر 973 عیسوی کو خراسان کے علاقے خوارزم کے مضافات میں ایک قصبے بیرون میں (جو آج کل ازبکستان کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے۔ اس قصبے کو آج کل بیرونی کہا جاتا ہے جس کا نام اس عظیم سائنس دان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ البیرونی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔
کاث شہر دریائے جیحون (دریائے آمو) کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ اس کے اردگرد کئی مضافاتی بستییاں تھیں جن میں ایک بستی کا نام بیرون تھا۔ اس مضافاتی بستی میں ایک یتیم بچہ پرورش پا رہا تھا جس کا نام محمد بن احمد تھا جو دنیا میں البیرونی کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بچہ شروع ہی سے قدرتی مناظر کا دلدادہ تھا۔ وہ دن بھر باغات میں گھومتا پھرتا، خوب صورت پہاڑوں پر چڑھ جاتا، صحرا میں دوڑتا بھاگتا اور شام کے وقت گھر لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں ریحان کی کونپلوں اور ٹہنیوں کا ایک گلدستہ ہوتا جسے وہ ایک پیالے میں سجا دیتا اور جب ہوا چلتی تو اس گلدستے کی خوشبو اس کے غریب خانہ کو معطر کردیتی۔ اس کی ماں اس کو اسی لئے ابو ریحان کہہ کر پکارتی تھی۔ البیرونی کا باپ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا لیکن اس کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے روزی کمانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کام میں البرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔
ایک روز البیرونی کی نباتات کے ایک یونانی عالم سے ملاقات ہو گئی۔ البیرونی نے اسے ایک باغ میں پھول توڑنے اور جنگل کے درختوں کے نیچے سے پودوں کو کاٹتے دیکھا تو اس یونانی عالم کے پاس پہنچ کر احتجاج کرتے ہوئے کہنے لگا: جناب آپ ان پھولوں کو کیوں توڑ رہے ہیں اور پودوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں؟ یہ سن کر یونانی عالم ہنس پڑا اور کہنے لگا: بیٹے میں ان پھولوں اور پودوں کو علم کی خاطر جمع کر رہا ہوں، ان پودوں اور پھولوں سے ہم بیماریوں کے علاج کے لئے دوائیں تیار کر رہیں۔ یہ سن کر البیرونی خوش ہو گیا اور اس نے عالم سے کہا تو آپ نباتات کے عالم ہیں؟ یونانی عالم نے پیار سے کہا: ہاں میرے بیٹے اور کہا میرا خیال ہے تمہیں پھولوں اور پودوں سے بہت محبت ہے۔ البیرونی نے کہا میں تو تمام قدرتی مناظر سے محبت کرتا ہوں۔ ستاروں، درختوں، پودوں، پھولوں، پہاڑوں، ٹیلوں اور وادیوں سے سب ہی سے مجھے محبت ہے۔ اس دن کے بعد وہ یونانی عالم البیرونی کو روزانہ تعلیم دینے لگا اور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گزر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا، اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کرلی اور یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا اس سے طبعی علوم کے بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔
اس وقت اس خطے میں خوارزم شاہ آل عراق خاندان کی حکومت تھی اور اس کے امرا میں سے ایک ابو نصر منصور ابن عراق تھا جو کہ مشہور ماہر فلکیات تھا۔ یونانی عالم اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلےالبیرونی کو فلکیات و ریاضی کے اس عالم ابو نصر منصور کی خدمت میں جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لئے الگ گھر تعمیر کروایا اوراس کے لیے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔ ابو نصر ہر روز اسے فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا اس کے بعد ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبدالصمد کی شاگردی میں دے دیا۔ البیرونی 17 سال کی چھوٹی سی عمر تک نہایت سنجیدہ قسم کے سائنسی کاموں میں مصروف ہو چکا تھا۔ 995 عیسوی (جب وہ 22 سال کا تھا) اس نے اپنے مختصر کاموں پر بڑی تعداد میں لکھا۔ 995 عیسوی اور 10ویں صدی کے آخر اور 11ویں صدی کے شروع میں کچھ ایسے سیاسی واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اسلامی دنیا میں بڑی بدامنی پیدا ہوئی اور وہ علاقہ جس میں البیرونی رہ رہا تھا اس علاقے میں بھی خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ خوارزم کے شاہ کو اس کے نوکر نے قتل کردیا جس سے خوارزم میں خانہ جنگی شروع ہوگی اور یوں البیرونی سے اس کی کفالت چھن گئی۔ اس بغاوت کے دوران البیرونی اس علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر اس کے استاد ابو نصر منصور کے ساتھ کیا بنا تاریخ میں اس کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کے بعد البیرونی نے بخارا میں سامانی خاندان کے پاس پناہ لی۔ یقینی طور پر سامانی خاندان نے شہزاد شمس المعالی قبوس ابن وشمگیر کو اس کا تحت واپس دلوانے میں مدد کی جو اس سے چھین لیا گیا تھا۔ قبوس ابن وشمگیر جرجان اور تبرستان کا حکمران تھا جو کہ آج کے ایران میں واقع ہیں۔ اس چیز نے البیرونی کو شہزادہ قبوس کے ساتھ واقفیت دلانے میں مدد دی۔ قبوس کی پاس البیرونی کی ایران کے ایک اور عظیم سکالر ابن سینا سے بھی ملاقات ہوئی۔
جرجان کے حکمران شمس المعالی قابوس بن وشمگیر کے پاس البیرونی نے ایک کتاب، کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ لکھی جو اس نے قابوس کے نام پر تحریر کی۔ اس کا خاص موضوع علم نجوم اور ریاضی تھا۔ لیکن اس میں بہت سے دیگر دلچسپ علمی، تاریخی اور مذہبی و فلسفیانہ باتیں بھی لکھی گئی ہیں اور جگہ جگہ تنقیدی انداز بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب اس دور کے اہم تاریخی، مذہبی اور علمی مسائل کی ایک تنقیدی تاریخ بن گئی ہے۔
دسویں صدی کے آخر تک بہت سے اسلامی خطوں میں سیاسی خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران ایک اور طاقت ابھر رہی تھی جو کی غزنی خاندان کی تھی جن کا دارالخلافہ غزنی افغانستان تھا۔ اس وقت کے بادشاہ محمود غزنوی نے اس سورش کے خلاف سامانیوں کی حکومت کا تختہ الٹا۔ البیرونی کو دوسرے بہت سے سکالرز کے ساتھ محمود غزنوی کی عدالت میں لیے جایا گیا۔ اور اس کے دربار میں جگہ دی گی۔ جب محمود غزنوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو البیرونی کو ساتھ لیے گیا۔ اس دوران البیرونی نے سنسکرت زبان سیکھی اور اپنی مشہور زمانہ کتاب "کتاب الہند" لکھی۔ جس کا پورا نام تحقیق ما للھند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ ہے جس میں البیرونی نے ہنددوں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اوربرصغیر پاک وہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ کتاب الہند کا مواد حاصل کرنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی۔ اس کتاب سے ہندووں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان میں رہ کرنہ صرف سنسکرت زبان سیکھی بلکہ ہندووں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے۔ انہوں نے سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئيں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندو عقائد، رسم و رواج کا غیر جانبدرانہ اور تعصب سے پاک انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل مآخذ کے حوالے سے پہنچیں۔
ایڈورڈ سخاؤ نے سب سے پہلے اس کا جرمن ترجمہ شائع کیا، بعد ازاں البیرونییز انڈیا کے نام سے اس کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیا جبکہ اس کا پہلا اردو ترجمہ سید اصغر حسین نے کیا جو انجمن ترقی اردو سے شائع ہوا۔
سن 1018 اور 1020 عیسوی کے درمیان البیرونی نے محمود غزنوی کی حمایت کے ساتھ غزنی کا صیح طول بلد ناپا۔ اسی دوران 17 ستمبر 1019 کو غزنی سے لگنے والے چاند گرہن کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس نے مختلف مشہور ستاروں کی اونچائی کے مطلق صیح صیح معلومات فراہم کیں۔ 1022 عیسوی میں محمود کی افواج نے بھارت کے شمالی علاقوں کی طرف مارچ کرتے ہوئے مختلف علاقوں پر قبضہ کیا۔ 1926 عیسوی میں اس کی افواج نے بحرہند کی طرف مارچ کیا اس دوران البیرونی نے پنجاب بھر کے گیارہ شہروں اور کشمیر کے بارڈر کا عرض بلد کا تعین کیا۔ 1030 عیسوی میں محمود وفات پا گیا اور اس کا بڑا بیٹا مسعود تحت پر بیھٹا۔ مسعود نے البیرونی کو اس کے کام کرنے کے لیے مزید آزادی دی اور وسائل فراہم کیے۔ 1030 عیسوی میں البیرونی نے ایک اور مشہور کتاب "القانون المسعودی" لکھی اوراس کتاب کو محمود غزنوی کے لڑکے سلطان مسعود کے نام کیا۔ یہ البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے۔ یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات، اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت تک لکھی جا چکی تھیں۔ اس کتاب کا علمی مقام بطلیموس کی کتاب المجسطی سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی کی بڑی اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔ 1040 عیسوی میں مسعود کو قتل کردیا گیا اور اس کا بیٹا معدود تحت نشین ہوا جس نے 8 سال تک حکومت کی اس وقت تک البیرونی بوڑھا ہو چکا تھا مگر اس نے اپنا سائنسی اور تحقیقی کام اپنی وفات تک جاری رکھا۔
البیرونی کی ایک اور کتاب " كتاب التفهيم لاوائل صناعة التنجيم" (ایلیمنٹس آف آسٹرولوجی) آج بھی اس موضوع پرایک اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ البیرونی کے خیال کے مطابق آسٹرولوجی ریاضی اور علم فلکیات کے لیے ایک اہم آلہ کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے اس لیے اس کی یہ آدھے سے زیادہ کتاب علم فلکیات، ریاضی، جغرافیہ اور آسٹرولوجی کی تعلیم پر مشتمل ہے۔
ریاضیاتی جغرافیہ میں البیرونی کی ایک اور شاہکار کتاب تحدید نهایات الاماکن لا تخشی مسافات المساکن (شہروں کے درمیان فاصلے کی اصلاح کے لئے مقامات کے نقاط کا تعین) ہے۔ اس میں انہوں نے نہ صرف ریاضیاتی علوم کی افادیت کو سمجھنے اور اس کے زریعے زمین کا طول و عرض بلد کا تعین کرنے کے بارے میں ذکر کیا ہے بلکہ دینی علما کے حملوں کے خلاف ریاضیاتی علوم کے کردار کا دفاع کیا ہے جو اس کو سمجھ نہیں سکے اور دین کے خلاف کہتے تھے۔ انہوں نے غزنی میں مقامی افق کے ساتھ مکہ مکرمہ کی سمت کا تعین کرنے کی بجائے جدید ترین کروی مثلثیاتی مسئلے کے حل کے ساتھ اس مخصوص بحث کو سمیٹ دیا اور مکہ کی صیح سمت کا تعین کیا اور اس کے علاوہ سائیوں کے پھیلنے اور سکٹرنے کے زریعے پنجگانہ نماز کے لیے اوقات کار کا صیح تعین کیا۔ اس طرح البیرونی نے نہ صرف دین میں رضیاتی علوم کے مفید کردار کا عملی مظاہرہ کیا بلکہ دوسرے سائنسی علوم کی افادیت پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے پہاڑوں کی تشکیل کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے اور فوسلز کے زریعے اس بات کی تشریح کی کہ ہماری زمین کبھی پانی کے نیچے تھی۔
البیرونی کی لکھی ہوئی کچھ کتابوں کے نام
کتاب استخراج الاوتار فی الدائرہ۔
کتاب استیعاب الوجوہ الممکنہ فی صفہ الاسطرلاب۔
کتاب العمل بالاسطرلاب۔
کتاب التطبیق الی حرکہ الشمس۔
کتاب کیفیہ رسوم الہند فی تعلم الحساب۔
کتاب فی تحقیق منازل القمر۔
کتاب جلاء الاذہان فی زیج البتانی۔
کتاب الصیدلہ فی الطب۔
کتاب رؤیہ الاہلہ۔
کتاب جدول التقویم۔
کتاب مفتاح علم الہیئہ۔
کتاب تہذیف فصول الفرغانی۔
کتاب ایضاح الادلہ علی کیفیہ سمت القبلہ۔
کتاب تصور امر الفجر والشفق فی جہہ الشرق والغرب من الافق۔
کتاب التفہیم لاوائل صناعہ التنجیم۔
کتاب المسائل الہندسیہ۔
مقالہ فی تصحیح الطول والعرض لمساکن المعمورہ من الارض۔
البیرونی کی دریافتیں
ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے جن کا ذکر کرنا ادھر ممکن نہیں مگر ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔
زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا۔
نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی۔
انہوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف اشکال والے برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے۔
انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔
انہوں نے جغرافیہ کے میدان میں کراچی پاکستان کے مقام پر کھڑے ہو کر پہاڑوں کی اونچائی کی مدد سے (ان کو سامنے رکھتے ہوئے) زمین کا محیط ناپا جو کہ انکی تحقیق کے مطابق 6339.6 کلو میٹر تھا۔ جبکہ یہ فاصلہ یورپ میں 16 صدی تک دریافت نہ ہوسکا تھا۔ البیرونی نے جو محیط ناپا اس میں اور آج کی جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق صرف چند میل کا فرق ہے۔
انہوں نے ایک آلہ ایجاد کیا جس کی مدد سے چند معدنیات اور دھاتوں کی تقریبا صیح کشش ثقل دریافت کی۔
البیرونی نے وقت کے تعین کے لیے میکانکی کیلنڈر پرایک مقالہ لکھا۔
انہوں نے روشنی کی ولاسٹی پر حیرت انگیز تحقیقات کیں۔ انہوں نے آواز کی رفتار اور روشنی کی رفتار کے فرق کے بارے میں دنیا کو آشکار کیا۔
انہوں نے آسمان پر ہماری کہکشاں ملکی وے کے بارے میں روشنی ڈالی کہ یہ بہت سے مبہم ستاروں کے بے شمار ٹکڑوں کا ایک مجموعہ ہے۔
البیرونی نے اس کے علاوہ فزکس یا طبیعات میں جن پہلوں پر روشنی ڈالی ان میں ہاڈروسٹک پہلو شامل ہے۔
انہوں نے سونے، پارا، سیسہ، چاندی، تانبہ، پیتل، لوہا اور ٹن کی کثافت کے درمیان تناسب بیان کیا۔
انہوں نے شمالی اور جنوبی سمتوں کا تعین کرنے کے لیے سات مختلف طریقے دریافت کیے۔
انہوں نے مختلف موسموں کے آغاز کا تعین کرنے کے لیے ایک ریاضیاتی نظام وضع کیا۔
اپنی تصنیف "القانون المسعودی" میں انہوں نے ان تمام سائنسی علم کو یکجا کردیا ہے جو انہوں نے سیکھے اور مشاہدہ کیے حتیٰ کہ اس میں مصری ماہر فلکیات اور ریاضی دان بطلیموس کا کام بھی شامل ہے۔ اپنی اس تصنیف میں انہوں نے الجبری نظام کو ایجاد کرتے ہوئے تیسری ڈگری مساوات کو حل کیا۔
آخر میں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ ہم اس عظیم سکالر کی شخصیت کے بارے میں بہت تھوڑا ہی بیان کرسکتے ہیں کیونکہ اس کے کام کا تقریبا پانچوں حصہ ہی تاریخ میں بچ سکا ہے باقی کہیں تاریخ میں کھو گیا ہے۔ مگر اس حقیقت کے برعکس ہم اس کے کام کی تحریروں سے جو بچ گئی ہیں یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ وہ ایک عظیم سائنسدان تھا۔ ہم ایک ایسے انسان کو دیکھتے ہیں جس نے نہ صرف چیزوں کواپنے اصل حقائق کے ساتھ دریافت کیا بلکہ تجرباتی اور سائنسی طریقوں سے ان کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھ کر نتیجے اخذ کیے۔ وہ ایک عظیم سائنس دان ہونے کے علاوہ ایک عظیم ماہر لسانیات بھی تھا۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں سائنس کے تاریخ دانوں کے لیے ایک عظیم سرمایا ہیں۔
انہوں نے 1950 عیسوی میں غزنی افغانستان میں وفات پائی
سن 2009 میں عراق نے اقوام متحدہ کو چار ایرانی عظیم سکالرز کے مجسمے پیش کیے جن میں سے ایک البیرونی کا تھا۔ اور جو آج بھی اقوام متحدہ کے مقام ویانا میں موجود ہیں۔