چوک بڑا اڈا لاریاں
چوک بڑا اڈا لاریاں لاھور جڑانوالہ روڈ کو شیخوپورہ اور غازی پور سے آنے والی سٹرک کو عبور کرکے شرقپور کو جانے والی سٹرک کے ملنے سے بنتا ہے۔ یہ بہت کشادہ چوک ہے۔ یہاں بہت زیادہ گاڑیوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ ٹیکسی سٹینڈ بھی یہیں ہے۔ اس چوک میں پہلے دو پٹرول پمپ تھے ابھی ایک رہ گیا ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز شیخوپورہ غازی پور روڈ پر واقع ہے۔ گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول شرقپور اسی چوک کے اوپر واقع ہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ ایلیمنٹری ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین اور گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول بھی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ تھانہ، مڈل سکول، تحصیل آفس، اسسٹنٹ کمشنر آفس، ٹی ایم اے آفس، شفاخانہ حیوانات بھی قریب ہی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
غازی پور اور نئی بھہنی کو جانے کے لئے پہلے تانگے یہاں سے عام ملتے تھے اب بھی مل جاتے ہیں مگر آب زیادہ تر ان کی جگہ چاند گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں نے لیے لی ہے۔ اس کے علاوہ لاھور،جڑانوالا اور شیخوپورہ جانے کے لیے بھی ٹرانسپورٹ یہاں سے باآسانی مل جاتی ہے۔ اس چوک میں مٹھائیوں کی دوکانیں، ہوٹل، آٹو کی دوکانیں اور ٹائر ورکس کی دوکانیں بہت زیادہ ہیں۔ سٹیشنری، کریانہ اور شیشہ فریمنگ کی دوکانیں بھی موجود ہیں۔ چوک کے اردگرد آبادیاں خوب پھیل گئی ہیں۔ یہ پررونق چوک ہے اور دن رات یہاں رش رہتا ہے۔
ختم نبوت ﷺ چوک
دفتر ٹاون کمیٹی کے پہلو میں یہ چوک واقع ہے۔ اسی چوک کو ویگنوں والا اڈا بھی کہتے ہیں۔ یہاں سے ویگنیں وغیرہ لاھور کے لیے چلتی ہیں۔ کبھی اسے چھوٹا اڈا لاریاں کہا جاتا تھا۔ اس چوک میں ٹاون کمیٹی کا دو منزلہ دفتر ہے نیچے دوکانیں اور اوپر جناح ہال اور دفاتر ہیں۔ مٹھائی اور پھلوں والے ریڑھیاں لئے کھڑے رہتے ہیں۔ ٹاون کمیٹی کی مارکیٹ اور میاں محمد اقبال کابلی کی مارکیٹ قیصر پلازہ اسی چوک میں ہے۔ جن میں خوب کاروبار ہوتا ہے۔
اسی چوک سے ایک سٹرک نبی پورہ سے ہوتی پرانی بھینی کو جاتی ہے۔ ایک بڑا اڈا لاریاں کو ایک محلہ حکیم گڑھی اور ایک پرانی سبزی منڈی والے چوک کی طرف جاتی ہے۔۔ عیسائیوں کا ایک گرجا بالکل قریب ہے۔ اور دوسرا ذرا ہٹ کرہے۔ عیسائیوں کی زیادہ آبادی اسی چوک کے قریب ہے۔ اسی آبادی کے ساتھ محلہ نبی پور میں سرکنڈوں کی چکیں بنائی جاتی ہیں۔ چودھری برکت مسیح اسی چوک کے بالکل قریب رہتا ہے۔ سیاست سے گہرا تعلق ہے اور کونسلر کی اقلیتی سیٹ پر اکثر جیتاتا رہتا ہے۔
ماہنامہ شمع لاھور کے ایڈیٹر محمد امین شرقپور ی کے والد ماجد حاجی محمد دین کی بہت بڑی حویلی اسی چوک کے قریب ہے اور ان کی بنائی ہوئی ایک چھوٹی سی مسجد بھی اسی چوک میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ شرقپور کا پرانا ہسپتال بھی قریب ہی ہے۔
یکم جون 1999 کو اس چوک کا نام ختم نبوت چوک رکھ دیا گیا۔ اس نام کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ کیونکہ تحریک ختم نبوت کی عظمت عام لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کرنے کے لیے قائدین نے پورے پاکستان میں، گلیوں، بازاروں اور چوکوں کے نام ختم نبوت سے منسوب کئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر ہونے کی حثیت سے ملک عارف بیوپاری نے بھی کوشش کی کہ ٹاون کمیٹی سے بڑا اڈا لاریاں تک بنائی گئی سڑک کا نام ختم نبوت روڈ رکھ دیا جائے۔ مگر ان کی یہ کوشش بار آوار نہ ہوسکی۔ پھر انہوں نے ٹاون کمیٹی والے چوک کو اسی نام سے منسوب کروانے کی کوشش کی لیکن عین اس وقت جب کامیابی ہونے لگتی تو حکومت تبدیل ہوجاتی اور بلدیاتی ادارے ٹوٹ جاتے۔
حقیقت یہ ہے اچھے کام کی سعادت جن لوگوں کا مقدر میں ہوتی ہے وہی انہیں کرپاتے ہیں۔ یہ کام چونکہ حاجی ذوالفقار علی مونگہ چیئرمین بلدیہ شرقپور شریف کے ہاتھوں سے ہونا تھا۔ لہذا انہیں سے ہوا۔ اور جون 1999 میں کمیٹی کے اپنے ایک اجلاس میں اسی چوک کو ختم نبوت کے نام سے منسوب کرنا منظور کر لیا۔ چنانچہ 2 جولائی 1999 کو اس نام کی تختی لگا کر اس کی نقاب کشائی کردی گئی۔
اس خوشی میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں تمام کونسلروں اور معززین شہر نے شرکت کی۔ ملک عارف کی کوششوں کو سراہا گیا اور جناب چیئرمین صاحب کے اس اچھے فیصلے کی تعریف کی گئی۔ تقریب کے آخر میں چائے پارٹی بھی کی گئی۔
اس چوک میں اس نام کے حوالے سے پہلا اجلاس 5 ستمبر 1999 کو حسن قرآت کا مقابلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت شرقپور شریف کے زیر اہتمام کیا گیا۔ مقابلہ میں شرکت کرنے والے بچوں کو اسناد اور شیلڈیں دی گئیں۔ تمغے اور دینی کتب بھی دی گئیں اور ملک عارف کی دستار بندی کی گئی۔ اب اس چوک کو ختم نبوت چوک کے نام سے یاد کیا جاتاہے مگر پرانا نام چھوٹا اڈا لاریاں اب بھی زبان عام ہے۔
چوک ملکانہ گیٹ
یہ چوک شرقپور کے مین بازار کے داخلی دروازے ملکانہ گیٹ کے باہر واقع ہے۔ اس کے دائیں بائیں سرکلر روڈ ہے۔ سامنے والی سڑک محلہ حکیم گڑھی کو جاتی ہے۔ ولی کامل اعلیٰ حضرت میاں شیرمحمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ شرقپوری کا گھر اس چوک سے زیادہ دور نہیں۔ شیرربانی سوئٹس والوں کی دوکان اس چوک کے بالکل قریب ہے۔ اس کے علاوہ معروف عالم دین، مصنف، حکیم اور وسیع زرعی رقبے کے مالک ملک حسن علی مطب، کتب خانہ اور رہائش گا اسی چوک کے قریب ہے آپ ڈاکٹر ذولفقار علی ملک وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاھور اور ڈاکٹر محمود علی ملک پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاھور کے والد ماجد تھے۔ ملکانہ ڈیرا بھی اسی چوک میں ہے جسے جدید رنگ دیا جاچکا ہے۔ اس کو کاریں کھڑی کرنے اور فاتحہ خوانی وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان بننے کے بعد یہ ڈیرا اومنی بس سروس کی انتظامیہ کو کرائے پر دیا گیا تھا۔ مولوی محمد شفیع والی مسجد اسی چوک میں ہے۔ ملک برکت علی مرحوم کے مکان کی نچلی منزل کی دوکانیں اسی چوک کے دوکانداروں کے کام آرہی ہیں۔
جب 1946 کے انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھییں تو حضرت قائداعظم ؒ نے سوچا کہ برصغیر کے مشائخ کو اعتماد میں لئے بغیر مسلم لیگ کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ چنانچہ کشمیری رہنما چودھری غلام عباس کو ہمراہ لے کر علی پور سیداں میں پہنچے اور پیر سید حضرت جماعت علی شاہ صاحبؒ سے ملاقات کی۔ عرض کیا۔ 1946 کے انتخابات سے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی تقدیر وابستہ ہے۔ اگر مسلمانوں نے بیداری اور ہوشیاری سے کام نہ لیا تو ایک نہایت اہم موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ کا تعلق چونکہ ملک کے گوشے گوشے کے مسلمانوں سے ہے اور آپ کی ہربات سر آنکھوں پر اٹھائی جاتی ہے ہم آپ سے اسی عظمت اور مرتبے کے حوالے سے عرض کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے دعا اور تعاون فرمائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ فرمایا۔ آپ نے اپنے مریدین سے کہا کہ جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف سجادہ نشین حضرات کو خطوط بھی لکھے اور خود بھی ملے۔ جن میں پیر آف مانکی شریف (سید امین الحسنات) سرفہرست ہیں۔ اس فہرست میں حضرت قبلہ ثانی صاحب میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی شامل تھا۔ اب آپ کے اہتمام سےملکانہ دروازہ شرقپور شریف میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس کی صدارت حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ نے فرمائی اور معزز مہمان جو باہر سے تشریف لائے ان میں
راجہ غضنفر علی،
شیخ کرامت علی،
چوہدری روشن دین بھنگو،
صوفی عبدالحمید،
میجرعاشق حسین،
چودھری محمد حسین چٹھہ،
ملک محمد انور،
میاں افتخار الدین،
اور دیگر عظیم رہنما شامل تھے
جلسہ کا آغاز دن کے 10 بجے ہوا اور اڑھائی گھنٹے تک اس کی کاروائی جاری رہی۔ لوگ آخر وقت تک جم کر بیٹھے رہے۔ اس جلسہ میں 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کی ایک تھیلی بھی مسلم لیگ کو پیش کی گئی۔ جلسے کے سارے اخراجات حضرت قبلہ ثانی صاحب نے خودبرداشت کیے۔
نوشاہی چوک (آرے والا چوک)
چوک شیرربانی کی طرف سے حکیم گڑھی کو آنے والی سڑک اور چوک ملکانہ گیٹ سے چوک شیرربانی کی طرف جانے والی سڑک جہاں 90 کے زاویے پر ملتی ہے اس نوشاہی چوک کہا جاتا ہے۔ یہاں سے ایک سڑک نواحی آبادی اور کھیتوں کی چلی جاتی ہے اور اسی سڑک سے ایک گلی خان بہادر والی مسجد کو بھی جاتی ہے۔
یہ چوک کوئی کاروباری مرکز نہیں ہے۔ میراں بخش موچی جس کے جوتے (کھسہ) پورے پاکستان بھر میں جاتے تھے اسی چوک کے ایک گوشہ میں بنایا کرتا تھا۔ اب ان کے بیٹے یہ کام کرتے ہیں۔ گوریاں والا کھوہ کی رونقیں اسی چوک کے دامن میں آباد تھیں اور مستری عبدالحق کا آرا (حاکے دا آرا) گوریاں والا کھوہ کے پڑانے میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے اس چوک کو پہلے گوریاں والا کہتے تھے۔ پھر آرے والا چوک اور اب نوشاہی چوک کہتے ہیں۔
فخر المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری کا مدرسہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب کا آغاز اسی چوک کی عمارت میں ہوا تھا اور کھبی اسی عمارت میں ماسٹر مرزا طاہر بیگ مرحوم بھی رہا کرتے تھے۔ مرزا طاہر بیگ ہر اس شخص کے استاد تھے جس نے 1940 سے 1982 تک گورنمنٹ ہائی سکول شرقپور میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ بڑے مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ ماسٹر انور قمر صاحب کی تصنیف مطالعہ نقوش شرقپور کی ترتیب انہیں کے ہاتھوں سے ہوئی۔
چوک شیرربانی
دربار حضرت میاں صاحب کو جاتے ہوئے سرکلر روڈ کی مشرقی اور مغربی سڑکیں ملکر جہاں کونہ بناتی ہیں یہ چوک وہیں واقع ہے۔ یہیں عید گاہ (میاں غلام اللہ) روڈ آکر مل جاتی ہے جس پر مدرسہ حضرت میاں صاحب اور دربار حضرت سید بابا گلاب شاہ رحمتہ اللہ علیہ واقع ہے۔ اس چوک سے ایک سڑک دربار روڈ دربار حضرت میاں شیرمحمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کو چلی جاتی ہے۔ تھوڑا ساآگے دربار شریف کو جائیں تو ایک سڑک نور پور آرائیاں، ٹھٹھہ لاہوے اور ٹھٹھہ نولاں کی طرف سے آتی ہوئی بغل گیر ہوتی ہے۔
اس چوک کو کبھی دھدلپورہ والا چوک کہا جاتا تھا۔ اس وقت یہ سڑک کچی تھی۔ ریتلی مٹی گرد اور دھول بنی رہتی تھی۔ بیل گاڑیاں یہاں پر اٹک اٹک جاتی تھیں۔ پیدل چلنے والوں کی رفتاریں کم ہوجاتی تھیں۔ اب پختہ سڑکوں کے بننے سے یہ صورت حال نہیں ہے۔
1969میں اس چوک کا نام ملک نور احمد نورکا مرحوم نے چوک شیرربانی رکھا اور اس نام کے بورڈ آویزاں کئے گئے۔
اسی چوک کے قریب محلہ نورکیاں واقع ہے۔ جس میں امام بارگاہ خدیجتہ الکبری اور امام بارگاہ گلستان زہرا واقع ہیں۔ اس کہ علاوہ ڈیرہ ملک حسین علی نورکا بھی قریب ہی واقع ہے۔ اسی محلے کے شروع میں جہاں گلی شروع ہوتی ہے جامع مسجد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ واقع ہے جس کا پرانا نام دھدلپورہ والی مسجد تھا۔ اس مسجد کا نام اعلی حضرت میاں شیر محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے رکھا گیا ہے آپ برصغیر کے ممتاز اولیا میں شمار ہوتے ہیں۔
چوک شیرربانی شرقپور کے سب چوکوں سے زیادہ کشادہ ہے۔ یہاں جلسے بھی ہوتے ہیں۔ جماعت میلہ بھی لگتا ہے۔ اور حضرت میاں صاحب کے عرس کے موقع پر دوکانیں بھی لگتی ہیں۔ یہیں ایک گوشے میں سلطان آئل ملز بھی لگی ہوئی۔
مجھ ناچیز مالک شرقپور ڈاٹ کام (ملک عثمان) کا تعلق بھی اسی محلے سے ہے۔
چوک نواں دروازہ
یہ چوک شرقپور کے مین بازا کے نواں دروازہ کے باہر سرکلر روڈ پر مظفر علی روڈ کے نقطہ آغاز پر واقع ہے۔ کسی وقت اسے چوک بازار حافظاں کہا جاتا تھا۔ مگر یہ نام شہرت نہ پاسکا اور چوک بازار حافظاں بھی دربار روڈ میں بدل گیا۔
اس چوک کے اردگرد حافظ برادران (بانی شرقپور کی اولادیں) کے مکان ہیں۔ بلکہ مین بازار کو جانے والا نواں دروازہ حافظ غلام یسین مرحوم کے مکان کے سائے تلے ہے۔۔ حافظ غلام یسین مرحوم ملک مظفر علی مرحوم کے بڑے بھائی اور ملک سرفراز احمد (سابقہ ایم این اے)اور ملک افتخار احمد (سابقہ چیئرمین بلدیہ شرقپور) کے والد ماجد تھے۔ اسی چوک میں کبھی حافظوں کا ڈیرا بھی ہوا کرتا تھا۔ جو بعد میں ملک سرفراز کا ڈیرہ بھی بن گیا۔ اب اس ڈیرہ کی جگہ نیشنل بنک بنا ہوا ہے۔ میاں ولی محمد ریوڑی مرحوم کا ڈیرہ بھی اسی چوک میں آباد تھا۔ اس کے تانگے یہیں کھڑے ہوتے تھے۔ یہیں اس کی کڑتل کی چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ حقے چل رہے ہوتے۔ ملک غلام محی الدین قصہ گھگی کاں پڑھا کرتا اور میاں ولی محمد ریوڑی خود اپنے مہمانوں کے لئے کھان لاتا۔ اب اس ڈیرے کی جگہ مرزا نذیر احمد کا دو منزلہ مکان بن گیا ہے۔
اس چوک میں شیخ خلیل اصغر ریوڑی اور ملک افتخار احمد نے کاروباری نقطہ نظر سے جدید طرز کی مارکیٹیں بنادیں۔ اندرون شہر جانے والے لوگوں کی کاریں، گاڑیاں اسی چوک میں کھڑی ہوتی ہیں۔ اس چوک میں خوب رونق ہوتی ہیں۔ اس چوک میں ریڑھیوں پر پھل بیچنے والے کھڑے رہتے ہیں۔
چوک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
کبھی اس چوک کو سورج کی پہلی کرنیں روشن کرتی تھیں۔ مگر اب بلند وبالا عمارتوں نے ان کرنوں کا رستہ روک لیا ہے۔ یہ چوک اس کونے پر واقع ہے جہاں پرانی سبزی منڈی کی طرف سے آنے والی سڑک دربار روڈ سے معانقہ کرتی ہے۔ ادھر کچے کھوہ کی طرف سے ایک رستہ ان میں شریک ہو جاتا ہے۔ اور ایک اور رستہ جامعہ نبویہ کی طرف سے آتا ہے جس کے آخر میں عیسائیوں کا پرانا قبرستان اور واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی لگا ہے۔
فی الحال یہ چوک کوئی زیادہ پررونق نہیں ایک جانب لوہے کا کام کرنے والے، الیکٹریشن کی دوکانیں بھی ہیں۔ ایک جانب دیسی سوڈا واٹر بنانے والی اور برف کی فیکٹری بھی ہے۔ اس چوک میں شرقپور کی سب سے اونچی مسجد سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی واقع ہے ۔ اگر آپ اس مسجد کے مینار پر چڑھیں تو آپ کو پورا شہر نظر آئے گا۔ شرقپور کے بانی کی اولادیں حافظ محمد یوسف مرحوم، بابا محمد یونس، حافظ ملک منظور احمد کے مکانات اسی چوک میں ہیں۔
برف والے کارخانے کی نسبت کھبی اسے برف والے کارخانے والا چوک بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ اس کارخانے کے مالک کا تعلق ختمی خاندان سے تھا اس لیے اسے ختمی چوک بھی کہا جاتا تھا۔ مگر اب مسجد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بن جانے کی وجہ سے اس کا نام چوک صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رکھ دیا گیا ہے۔
سبزی منڈی والا چوک
یہ چوک شرقپور کے مین بازار کے روشنائی دروازہ (سبزی منڈی والا دروازہ) کے باہر واقع ہے۔ تھانے اور اسسٹنٹ کمشنر کے آفس کی طرف سے آنے والی سڑک کا نقطہ آغاز یا نقطہ انجام یہی چوک ہے۔ مین بازار بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ دفتر ٹاون کمیٹی اور ویگن سٹینڈ کو جانے والے سڑک بھی یہیں سے رہنمائی کرتی ہے۔ شرقپور کی سب سے پرانی مسجدوں میں سے ایک مسجد اب مینار والی مسجد بھی اسی چوک میں ہے۔ شرقپور کا ڈاک خانہ بھی اس چوک سے قریب ہی ہے۔
یہاں کبھی سبزی منڈی ہوا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اسے سبزی منڈی والا چوک بھی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اسے بوہے والا چوک بھی کہتے تھے۔ مینار والی مسجد کی توسیع سے قبل حافظ محمد جمال (بانی شرقپور) کا کھوہ (کنواں) اس مسجد کے دروازے کے بائیں پہلو میں تھا۔جسے بوہے والا کھوہ کہتے تھے۔ اور اس مسجد کو بوہے والی مسجد کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں اسے قاضیانوالی مسجد بھی کہا جاتا تھا، جو بعد میں مینار والی مسجد اور پھر مسجد اہلحدیث بھی کہلوائی۔
اس چوک میں ایک بوھے والا ڈیرہ (ڈیرہ حافظ محمد جمال) بھی تھا۔ یہ ڈیرہ شرقپور کے بانی حافظ محمد جمال نے شاہ جہاں بادشاہ کے دور میں آباد کیا تھا۔ اس ڈیرے میں حافظ محمد جمال اور دوسرے لوگ جنہوں نے شرقپور کو آباد کیا تھا۔ شام کو بیٹھ کربیٹھک لگایا کرتے تھے اور حقہ پیا کرتےتھے۔
شروع میں اس ڈیرے میں ایک مسافر خانہ بنایا گیا تھا۔ پھر اس میں پختہ کمرے بن گئے۔ حافظ محمد جمال یہاں ڈیرہ لگایا کرتے تھے اور آنے والے مہمانوں کی لسی اور روٹی سے تواضہ کی جاتی تھی۔ حافظ محمد جمال کے بعد ان کے بیٹوں حافظ محمد برہان، حافظ محمد اور حافظ احمد نے اسی نہج پر اس ڈیرے کو چلایا جس پر ان کا باپ چلاتا تھا۔ مگر ان کے بعد ان کے بیٹے بکھر گئے اور اپنے دھندوں میں ایسے الجھے کے ڈیرے پر توجہ نہ دے سکے۔ اور یہ ڈیرہ محض فارغ قسم کے لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ بن گیا۔ حافظ ملک مظفر علی اور ا نکے بھتیجے حافظ برکت علی کی زندگی میں اس ڈیرے میں شام کے بعد کچھ گہما گہمی ہوتی تھی۔ زیادہ باتیں سیاست پر ہوتی تھیں۔ سائیں محمد رمضان ڈیرے کے دھوئیں اور حقے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ بعد میں یہ ڈیرہ محض فاتحہ خوانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یا کھبی کبھی کوئی چھوٹا موٹا مذہبی یا سیاسی جلسہ ہو جاتا تھا۔ 13 اگست 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا۔
اس چوک میں مٹھائیوں، سبزیوں، پھلوں اور کریانہ کی دوکانیں ہیں۔ فوٹو گرافی، ٹی وی مرمت، گھڑیوں کی مرمت، سلائی مشینوں کی مرمت کی دوکانیں بھی ہیں۔ جوتے فروشوں کی دوکانیں اور ٹی سٹال بھی ہیں۔ فوٹو سٹیٹ کرنے والے اور اسٹامپ فروش بھی یہیں مل جاتے ہیں۔ گویا کہ یہ چوک کافی حد تک ضروریات زندگی مہیا کرنے والا ہے۔
اسی چوک کے ذرا آگے تھانے کی طرف جاتے ہوئے ایک اور چوک بھی ہے جسے کوئی الگ نام نہیں دیا گیا ہے یہ بھی سبزی منڈی والا چوک ہی کہلاتا ہے۔ یہ چوک ملک شیر علی کی گلی کے سامنے واقع ہے۔ اہل حدیث کے معروف عالم دین مولانا محمد یحییٰ صاحب کا گھر اس کے بالکل قریب ہے۔ یہاں سے پرانے ہسپتال کو ایک گلی جاتی جو زیادہ دور نہیں۔ نفیس خان صاحب اسی چوک میں اس بڑے مکان میں رہتے ہیں جو کھبی دولت رام ہندو کا مکان تھا۔ آپ اکرام الحق خان ترین پولیس انسپکڑ کے بیٹے ہیں۔ سیاست سے گہرا لگاو رکھتے ہیں۔ ایک پرانے مسلم لیگی کارکن میاں عبدالعزیز ریوڑی کی رہائش گاہ اور اسٹامپ فروش وثیقہ نویس کی دوکان بھی اسی چوک کے قریب ہے۔ آپ جب تحریک پاکستان کے سلسلے میں 1946 میں گرفتار ہوئے تو اس وقت ان کی عمر صرف 15 سال کی تھی۔ حبیب بنک ان کے مکان کے بالکل سامنے ہے۔ ام المدراس بھی اسی چوک کے قریب ہے۔
نلکے والا چوک
شرقپور میں تین بازار ہیں جو کہ ایک ٹی شکل میں ہیں۔ اگر آپ روشنائی یا سبزی منڈی والے دروازے سے داخل ہوں جو جہاں دوسرے دو بازار ایک دوسرے کو دائیں اور بائیں سے کراس کرتے ہیں۔ اسے نلکے والا چوک کہا جاتا ہے۔ کھبی اس چوک کے ایک طرف نلکا تھا۔ اس کی نسبت سے اسے نلکے والا چوک کہتے تھے۔ اس نلکے کے ساتھ والی دیوار پر جلسوں، جلوسوں کے بہت سے اشتہارات لگائے جاتے تھے۔ اس وجہ سے اسے اشتہاروں والا چوک بھی کہا جاتا تھا۔ یہ چوک شہر کے عین وسط میں واقع ہے۔ سونے چاندی کے زیورات کی دوکانیں اسی چوک میں ہیں۔ شہر کے سب چوکوں سے سب سے تنگ ترین چوک یہی ہے اتنی بھیٹر ہوتی ہے کہ کھوے سے کھوا چلتا ہے۔ چھابڑی فروش اور ریڑھیاں والے اسے اور تنگ بنادیتے ہیں۔ شرقپور کی قدیمی مسجد ٹاہلی والی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اور شرقپور کی مشہور سوغات گلاب جامن (حاجی حاکم کے گلاب جامن) بھی اسے چوک کی قربت میں مل جاتے ہیں۔ کبھی اسی چوک سے بابا اللہ رکھا کے پان ملا کرتے تھے۔ اس دوکان میں کبھی دولت رام کپڑا بیچا کرتا تھا۔
دانتوں کے ماہر اور مشہور ڈاکٹر حمید اختر اسی چوک کے دامن میں بیٹھتے تھے۔ حاجی محمد اشرف عرف حاجی بلہ اور خواجہ مولوی نور محمد نارگ بھی اسی چوک کے قریب کی گلی میں رہتے تھے۔ دونوں بڑے صاحب سیرت انسان تھے۔ اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد صاحب ان سے بڑا پیار کرتے تھے۔ اسی چوک کے قریب حافظ محمد جمال بانی شرقپور کا محل تھا جہاں اب ایک مارکیٹ بن چکی ہے۔
گھاٹ چوک
کوٹ مظفر علی (ٹھٹھہ لالچیاں) کی طرف سے آنے والی سڑک شرقپور میں داخل ہونے کے لئے جب لاھور، جڑانوالہ روڈ کو کاٹتی ہوئی گزرتی ہے تو یہ چوک بنتا ہے۔ چونکہ اس جگہ کو گھاٹ کہتے ہیں۔ اس لیے اس چوک کا نام بھی گھاٹ چوک ہے۔ یہاں ہر گاڑی رکتی ہے۔ چڑھنے اترنے والی سواریوں کا بڑا ہجوم رہتا ہے۔
مٹھائی اور پھلوں کی دوکانیں ہیں۔ پرانا مرکز صحت اور ٹیلیفون ایکسچینج یہیں سے دکھائی دیتے ہیں جو زیادہ دور نہیں ہیں۔ ملک سرفراز احمد صاحب سابق ایم این اے کا ڈیرہ بالکل قریب ہے۔ میڈیکل سٹور اور دیسی حکیموں کی دوکانیں اس چوک میں موجود ہیں۔ صبح سے عشا تک اس چوک میں خوب گہما گہمی رہتی ہے۔