وقار انبالوی شرقپور کی دھرتی کا وہ سپوت تھے جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ آپ اردو زبان کے شاعر، افسانہ نگار اور صحافی تھے۔ آپ کا تعلق شرقپور کے نواحی گاوں سہجوال سے تھا۔ آؔپ 22 جون، 1896ء کو موضع چنار تھل ، ضلع انبالہ کے گاوں ملانہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام ناظم علی تھا۔
پہلی عالمگیر جنگ میں دس ریکروٹ بھرتی کرانے پر بونس کے طور انہیں براہِ راست نائیک بھرتی کرلیا گیا۔ ناگ پور میں مقیم پنجاب رجمنٹ میں ان کی پہلی تعیناتی ہوئی۔ وہیں حوالدار ہوئے‘ بعد میں ان کے کمانڈر نے ان کا تبادلہ فرنٹیئر پولیس میں کرکے کوئٹہ بھیج دیا۔بعد ازاں وہ نوکری چھوڑ کر لاہور میں روزنامہ زمیندار کے سٹاف میں شامل ہوگئے۔
دوسری جنگِ عظیم میں ایک بار پھر وقار انبالوی کو میدانِ جنگ میں اترنا پڑا۔ کئی اخبار نویسوں کو بطورِ آبزرور مختلف ممالک میں بھیجا گیا۔ وقارانبالوی کو مصر بھیجا گیا تھا جہاں وہ مصری ریڈیو سے تقریر یں نشر کرتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور کے ادیبوں اور دانش وروں نے کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس کا رخ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ان ادبی مراکز پرجن ادیبوں نے ادبی نشستوں کا اہتمام کیا ان میں وقار انبالوی صاحب کا نام بھی سرفہرست ہے۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور لاہور کے متعدد اخبارات سے وابستہ رہے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ روزنامہ پرتاب، روزنامہ ملاپ، ماہنامہ چندن، ماہنامہ علم وعمل، اور اس کے علاوہ 1939ء سے 1946ء تک روزنامہ احسان لاہور کے ایڈیٹر رہے۔ 1947ء سے 1949ء تک روزنامہ سفینہ لاہور کے مدیر رہے (لاھور میں جہاں آج فوڈ سٹریٹ قائم کی گئی ہے وہاں قیام پاکستان سے پہلے امیر ہندو مقیم تھے۔ پاکستان بننے کے بعد امرتسر سے آنے والے مہاجرین یہاں مقیم ہوئے۔ یہاں ایک بلند عمارت میں روزنامہ ”سفینہ“ کا دفتر تھا جس کے ایڈیٹر وقار انبالوی صاحب تھے۔)، آپ 1952ء سے 1956ء تک روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں قطعہ نگاری اور فکاہیہ کالم نگاری 1956ء سے 1988ء تک جاری رکھی۔
دوسری بار ریٹائرمنٹ پر نوائے وقت سے وابستہ ہوئے۔ ’’سرے راہے‘‘ کے عنوان سے مقبول سلسلہ شروع کیا۔ قطعات بھی لکھے۔ زندگی کی آخری سانس تک چاق چوبند رہے۔
وقار انبالوی کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی تصانیف میں
آہنگ رزم (رزمیہ نظمیں)، لاہور،مکتبہ اُردو، بار دوم، ت ن، 96 ص
دیباچیہ از کیفی دہلوی، ماڈل ٹاون لاہور، 5 اگست 1935ء
آہنگِ رزم از مصنف 15 دسمبر 1937ء
زبان حال (1947ء)نظمیں
دیہاتی افسانے (افسانے)
شامل ہیں۔
اردو کا یہ مشہور شعر جو بالعموم علامہ اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے، انہی کا کہا ہوا ہے:
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوِا کیا ہے؟
اک ضربِ یدَّاللہی، اک سجدۂ شبیریؑ
وقار انبالوی صاحب نے 26 جون، 1988ء کو وفات پائی اور شرقپور کے نواحی گاوں سہجووال میں سپردِ خاک ہوئے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
انڈیا کے مشہور ادیب جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب
وہ صورتیں الہیٰ "کس دیس بستیاں ہیں" اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔
جو 2003 میں شائع ہوئی کے صفحہ 174 پر وقار انبالوی صاحب کا ذکرکرتے ہوئے عطاالحق قاسمی صاحب کو کچھ یوں لکھتے ہیں۔
مولانا وقار انبالوی
(کچھ یادیں: کچھ باتیں)
عزیز محترم عطاالحق قاسمی صاحب آداب
بہت دن ہوئے "ںوائے وقت" میں مولانا وقار انبالوی کے انتقال کی خبر پڑھی تھی۔ اس کے بعد بھی "نوائے وقت" میں اکثر ان کا ذکر دیکھنے میں آجاتا ہے۔ آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں کہ "نوائے وقت" کے ذریعے سے ان کی یاد برقرار رکھے چلے آرہے ہیں۔
نام نیک رفتگان ضائع مکن
دراصل جب "ںوائے وقت" سے ان کی ریٹائرمنٹ کی اطلاع میری نظر سے گزری تھی تو میں اسی وقت ان کے متعلق ایک مضمون لکھنا چاہتا تھا۔ فرصت نہ ملی، پھر ان کے انتقال پر ملال کی خبر آئی۔ اس وقت بھی لکھنے کا ارادہ کیا لیکن مکروہات دینوی نے مہلت نہ دی۔ اب 7 جولائی 1988 کے "نوائے وقت" میں جو مجھے تین روز قبل ملا ہے مرحوم کے بارے انور داودی کا چھوٹا سا کالم دیکھا تو خیال آیا کہ میں بھی اس سلسلے میں کچھ لکھ کر آپ کو بھیجوں۔
پہلی بات تو اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ وقار صاحب کے پہلے تخلص کے متعلق انور داودی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ "غاضف مہرتوی" کہلاتے تھے۔ یہ صحیح نہیں۔ ان کا پہلا تخلص "غاضف ملانوی" تھا۔ غاضف تخلص اور ملانوی اس لئے کہ ملانہ ان کے گاوں کا نام تھا۔ یہ گاوں انبالے کے قریب ہے۔ مولانا تاجورنجیب آبادی، وقار صاحب کی شاعری کے مداح تھے۔ لیکن "غاضف ملانوی" ایسے کرخت تخلص پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ ایک دن انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ان سے پوچھا کہ غاضف صاحب ملانہ کے نزدیک کوئی معروف شہر نہیں ہے ؟ غاضف صاحب نے کہا ہے تو سہی، انبالہ آپ تو جانتے ہیں۔ "تو مولانا نے فورا کہا" تو پھر ملانوی کیوں بنے پھرتے ہو۔ انبالوی کہو اور یہ تخلص بھی بدل دو۔ آج سے تمہارا تخلص وقار انبالوی ہے"۔ غاضف صاحب کو بھی یہ تخلص پسند آیا اور اس روز سے وقار انبالوی بن گئے۔
میں 1937 میں لاھور آیا لیکن یہ میرے لاھور آنے سے بہت پہلے کی بات ہے اس بات کا ذکر خود مجھ سے استاد محترم مولانا تاجور نجیب آبادی نے کیا تھا۔ بعد میں وقار صاحب نے خود اس کی تائید کی۔ انور داودی صاحب کی تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزنامہ "ملاپ" کی ملازمت چھوڑ کروقار صاحب "احسان" کے مدیر مقرر ہوئے۔ دراصل ان کا روزنامہ "ملاپ" کا دور ملازمت بہت پہلے کی بات ہے۔ جب روزنامہ "احسان" سے انھیں مدیر بننے کی پیش کش ہوئی تو وقار صاحب روزنامہ "پرتاب" میں ملازم تھے اور اس بات کی تائید والد محترم کی اس رباعی سے بھی ہوتی ہے۔
جس دن سے ادھر سے تو ادھر آیا ہے
جشم بینا کو کم نظر آیا ہے
"احساں" پہ بھی احساں تھا ضروری لیکن
"پرتاپ" کو بے وقار کر آیا ہے
میرے اور وقار صاحب کے مراسم 1937 سے 1947 تک اس طرح کے رہے کہ ہرروز نہیں تو ہفتے میں چار پانچ یا چھے روز ضرور ان سے ملنا ہوتا تھا۔ میرے ان کے دوستانہ مراسم نہیں تھے۔ دوست تو وہ میرے والد محترم کے تھے۔ میں ان کا نیاز مند تھا۔ ان کی بدیہہ گوئی کا عاشق تھا۔ اور ان کی گفتگو کا جس میں عالمانہ شان، ادبی مرتبہ، ضلع جگت، فقرہ بازی سب کچھ شامل تھا۔ اگرچہ میرا ان کا رشتہ خوردی بزرگی کا تھا۔ لیکن وہ بے تکلفانہ گفتگو کے دوران میں فخش گوئی سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ اور برجستہ جملہ کہنا تو آپ جانتے ہیں آخر تک ان کے مزاج کا جزرہا۔
آپ کو یاد ہو گا 1983 میں دوسری اقبال عالمی کانگریس کے بعد جب آپ اور نواب زادہ عبدالغفور خاں صاحب مجھے واھگہ تک پہنچانے آرہے تھے اور ابھی ہمارے پاس کچھ وقت تھا تو میں نے کہا کہ ممکن ہو تو مجید نظامی صاحب اور وقار انبالوی صاحب سے ملتے چلیں۔ چنانچہ ہم تینوں "نوائے وقت" کے دفتر میں پہنچے اور مجید نظامی صاحب سے ملنے کے بعد وقار صاحب کے کمرے میں گئے تو ان کے اس جملے کے بعد "یہ تو میرا بھتیجا آگیا ہے" جب میں نے ان کی خیریت پوچھی تو آپ نے ان کے بارے میں یہ بتایا کہ مولانا ہرروز بس میں اپنے گاوں سہجوال سے آتے ہیں روزانہ "سرراہے" کا کالم اور قطعہ لکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ساتھ ہی کہا کہ "مولانا ہر طرح سے فٹ ہیں" تو ان کا یہ جواب تھا کہ
"فٹ ہونے کے معنی تو یہی ہیں کہ انسان ہرطرح سے فٹ ہو اور اگر ہر طرح سے فٹ نہ ہو تو فٹے منہ "
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں وقار انبالوی کے نام اور کلام سے 1934 میں واقف ہوا۔ اس زمانے میں مہاشے سدرشن "چندن" نام کا ایک ماہنامہ نکالتے تھے اور یہ ماہنامہ سدرشن صاحب کے افسانوں اور سلسلہ وار ناولوں کی اشاعت کی وجہ سے بہت مقبول تھا۔ وقار انبالوی کا کلام اس میں شائع ہوتا تھا۔ ان کے کلام کے ساتھ میرا اولین تعارف اسی "چندن" کی بدولت ہوا۔ جہاں تک میرا خیال ہے وقار صاحب کچھ مدت اس رسالے کے نائب مدیر بھی رہے اور نائب مدیر کے طور پر ان کا نام بھی اس پر چھپتا تھا۔
ساتھ ہی وقار انبالوی اس زمانے میں کویراج ہرنام داس بی اے کی کتاب "ہدایت نامہ خاوند" کو منظوم کررہے تھے۔ اور یہ منظوم کلام سلسلہ وار کویراج جی کے ماہنامہ "علم وعمل" میں باقاعدگی سے شائع ہورہا تھا۔ یہ ایک مثنوی تھی اور بہر ہزج مثمن سالم میں تھی۔ یعنی حفیظ جالندھری کے "شاہنامہ اسلام" کی بحر میں۔ تو گویا وقار صاحب اپنی بدیہہ گوئی کو پوری طرح استعمال کررہے تھے اور بدیہہ گوئی کا جہاں تک تعلق ہے پنجاب میں دوشعرا کا نام اس وقت چمک رہا تھا۔ ایک مولانا ظفر علی خاں اور دوسرے وقار انبالوی۔ شورش کاشمیری کی اٹھان سے بھی گمان یہ ہوتا تھا کہ بدیہہ گوئی میں یہ بھی اپنا جواب آپ ہی ہوں گے۔ میں اس وقت رئیس امروہوی کے نام اور کلام سے ناواقف تھا ورنہ گو شعرا کی فہرست رئیس امروہوی کے نام کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتے۔
کویراج ہرنام داس والد محترم کے شاگردوں میں تھے۔ عیسی خیل میں جب والد قیام کرنے کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے اور ہر نام داس نے طب کا امتحان پاس کرنے کے بعد لاھور میں مطب کھول لیا۔ والد جب لاھور آتے تھے تو انہی کویراج ہرنام داس کے یہاں قیام کرتے تھے۔ اسی مطب میں ماہنامہ "علم وعمل" کا دفتر تھا۔ وقار صاحب "علم وعمل" سے بھی وابستہ تھے اور اسی دفتر میں والد کی ان سے ملاقاتوں کی ابتدا ہوئی۔
والد جب لاھور سے واپس راولپنڈی جاتے تھے اور لاھور کی باتیں سناتے تھے تو وقار انبالوی اور ان کی شاعری کا اکثر ذکر کرتے تھے۔ "چندن" اور "علم و عمل" میں میری نظر سے ہی ان کا کلام گزرا تھا۔ اسی زمانے میں وقار صاحب روزنامہ "ملاپ" کو بھی وقت دیا کرتے تھے۔ ان کی نظمیں قارئین "ؐملاپ" میں بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔
کچھ مدت بعد ماہنامہ "چندن" سے مہاشے سدرشن کا نام غائب ہو گیا اور اس پر صرف وقار انبالوی صاحب کا نام آنے لگا۔ غالبا کویراج ہرنام داس نے ماہنامہ "چندن" مہاشے سدرشن سے خرید لیا تھا اور انہوں نے وقار صاحب کو اس کا ایڈیٹر مقرر کردیا تھا۔ لیکن مہاشے سدرشن کی علیحدگی کے بعد "چندن" چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا کیونکہ اس میں سدرشن کے افسانے چھپنے بند ہوگئے تھے اور اس کی ساری مقبولیت سدرشن کے افسانوں کی وجہ سے تھی۔
یہ تمام باتیں 1937 سے یعنی میرے لاھور آنے سے پہلے کی ہیں۔ میں جب 1937 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد لاھور آیا تو "چندن" بند ہوچکا تھا اور وقار صاحب روزنامہ "پرتاب" میں کام کرتے تھے۔ اور حالات حاضرہ پر ان کی نظمیں '"پرتاب" کی مقبولیت کا بڑا سبب تھیں۔ اس وقت وقار صاحب "ہدایت نامہ خاوند" کو منظوم کرنے کے بعد کویراج ہرنام داس کی دوسری تصنیف '"ہدایت نامہ بیوی" کو منظوم کررہے تھے۔ ظاہر ہے ان نظموں میں شاعری کہاں ہوگی، وہ تو وقار صاحب کی قادرالکلامی تھی کہ جس طرح ہم لوگ نثر میں بات کرتے ہیں اسی طرح یعنی اس آسانی کے ساتھ وہ مصرع موزوں کرلیا کرتے تھے۔
کویراج ہرنام داس کے مطب میں ایک کمرہ مہمانوں کےلئے وقف تھا۔ چنانچہ میں جب لاھور آیا تو میں نے بھی اسی کمرے کو اپنی قیام گیاہ بنایا۔ اس سے مجھے یہ شرف حاصل ہواکہ ہر دوسرے تیسرے دن وقار صاحب سے ملاقات ہونے لگی۔ وقار صاحب کو شاعری کے رموز میں جو گہری نظر حاصل تھی وہ کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ وہ بات بات میں شعروسخن کی باریکیوں سے مجھے آشنا کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں ان کی ایک نظم شائع ہوئی تھی۔ جس میں اول سے آخر تک اسما کے سوا اور کچھ نہیں تھا نہ افعال نہ حروف۔ اس نظم کا صرف آخری مصرع مجھے یاد رہ گیا ہے۔
رات تنہائی، قلم، کاغذ، وقار
اس مصرعے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس نظم کی ساخت کیا رہی ہوگی۔ اسی زمانے میں ان کا مجموعہ کلام "آہنگ رزم" مکتبہ اردو لاھور کے زیر اہتمام شائع ہوا جو جنگی نظموں پر مشتمل تھا۔ یہ اس طرح کی جنگی نظمیں نہیں تھیں جس طرح کی نظمیں دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ابو الاثر حفیظ جالندھری (سانگ پبلسٹی آرگنائزر، گورنمنٹ آف انڈیا) کی فرمائش پر اکثر اردو شعرا نے کہیں بلکہ شاعر کے اپنے انداز میں جو ایک رزمیہ کفیت پہناں تھی۔ یہ نظمیں اس کا پرتو تھیں۔ مثلا ایک نظم میں بچہ اپنے والدین سے کہتا ہے۔
مجھے چھوٹی سے ایک تلوار لادو
نشان جرات پیکار لادو
غالبا "آہنگ رزم" کا نیا ایڈیشن مکتبہ کارواں لاھور نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔
میں نے چند سطور قبل والد اور وقار صاحب کے باہمی مراسم کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک رباعی بھی درج کی گئی ہے۔ والد کے اسی سفر لاھور کا ذکر ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ باتوں باتوں میں وقار صاحب نے ان سے کہا اس جنگ کا انجام کیا نظر آرہا ہے۔ والد ایک آدھ منٹ خاموش رہے پھر بولے۔
ہو لاکھ مئے خودی سے ہٹلر سرمست
ہوجائیں گے اس کے حوصلے آخر پست
جب گھر میں خوراک ختم ہوجائےگی
کیا کھائے گا وہ اگر نہ کھائے گا شکست
ایک اخبار کا ایڈیٹر ایسی چیزیں کہاں چھوڑتا ہے۔ وقار انبالوی صاحب نے یہ رباعی لکھ لی اور اگلے دن اپنے تمہیدی نوٹ کے ساتھ اخبار میں شائع کردی۔
اسی سفر کی بات ہے وقار انبالوی صاحب اور والد اکھٹے جارہے تھے۔ دیواروں پر جابجا سینما کے پوسٹر لگے تھے ان پر وہی عام تصویریں بنی تھیں۔ نیم عریاں قسم کی۔ وقار انبالوی صاحب نے تصویروں کی جانب اشارہ کیا اور کہا۔ "ملاحظہ فرمایا آپ نے؟" والد نے جواب میں کہا
اب عشرت پہ تبسم نظر آتا ہے مگر
آنکھ اخلاق کی روتی ہے بڑے شہروں میں
خلوت خاص میں جس بات سے آتی ہے حیا
منظر عام پہ ہوتی ہے بڑے شہروں میں
والد کا مجموعہ کلام "گنج معانی" شائع ہوا تو وقار صاحب نے اس پر اپنے مذکورہ ماہنامے "چندن" میں ایک بھر پور مضمون لکھا۔ یہ مضمون شاعری میں وقار صاحب کی گہری نقادانہ نظر کی دلیل ہے۔ یہ مضمون اس وقت راقم التحریر کی کتاب "تلوک چند محروم" مطبوعہ ادارہ فروغ اردو لکھنو 1959 میں شامل ہے۔ یوں یہ مضمون وقار صاحب کی شگفتہ نثر نگاری کا ایک مرقع ہے لیکن میں اس میں بیان کیا ہوا صرف ایک ہی تنقیدی نکتہ یہاں پیشں کروں گا۔ شراب کی مذمت میں والد کی ایک نظم ہے جس میں شعر آتا ہے۔
جلا کے جوہر ادر اک کودھواں کردے
دماغ کو وہ ابالے کہ نیم جاں کردے
اس نظم کے متعلق یہ لکھنے کے بعد کہ "شاعری کے لئے نصحتوں کا موضوع" کسی قدر خشک موضوع ہے لیکن محروم وقار کی قادر الکلامی اور شاداب خیالی نے اس صحرا مٰن بھی گلہائے مضمون کھلائے ہیں۔ " اور پھر مذکورہ شعر درج کر کے نیچے حاشیے میں لکھتے ہیں"
"ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ خلاف محاورہ ہے۔ میں نے اس کی عقل پر ماتم کیا اور کہا کہ جوہر ادراک کی خاک سے جوہر ادراک کا دھواں زیادہ بلیغ ہے اور یہ کہ محل محاورہ نہیں لیکن وہ اڑے رہے۔"
افسوس کے مذکورہ کتاب "آہنگ رزم" کے علاوہ وقار صاحب کا صرف ایک مجموعہ نظم شائع ہوا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کا نام "بیان حال" ہے اور یہ مکتبہ "نوائے وقت" لاھور نے شائع کیا تھا۔ اور نثری مضامین کا تو ان کا کوئی مجموعہ شائع ہی نہیں ہوا۔
گارڈن کالج راولپنڈی سے نکل کے میں لاھور پہنچا تو بے کاری استقبال کے لیے موجود تھی۔ وقار صاحب سے مشورہ کیا کہ کیا جائے۔ طے پایا کہ کسی روزنامہ اخبار میں پارٹ ٹائم نوکری کرلی جائے اور ایم اے میں داخلہ لے لیا جائے۔ خیال یہ تھا تیس روپے ماہانہ میں کام چل جائے گا۔ وقار صاحب اگرچہ خود روزنامہ "ملاپ" کو چھوڑ چکے تھے لیکن "ملاپ" کے مالکوں مہاشے خوشحال چند خورسند اور ان کے فرزند رنبیر جی سے ان کے مراسم بہت اچھے تھے۔ چنانچہ مجھے اپنے ساتھ لیے کے وہ "ملاپ" کے مالک رنبیر جی کے وہاں پہنچے۔ رنبیر جی نے تھوڑی دیر بات چیت کے بعد خود ہی چالیس روپے ماہانہ کی پیش کش کردی ۔ وقار صاحب نے چھوٹتے ہی کہا۔ "یہ تو تیس روپے کی توقع پر آیا تھا"۔ رنبیر جی بولے "تنخواہ تو اب بھی تیس ہی ہے۔ دس روپے مزید اس لئے ہیں کہ میں ان سے "رباعیات عمر خیام" پڑھوں گا۔ لیکن جب تک میں "ملاپ" میں رہا رنبیر جی کو رباعیات عمر خیام پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے میں وقار صاحب کے گھر میں بیٹھا تھا۔ نیچے سگریٹ والے کی دوکان تھی۔ اچانک اس دوکان سے ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اور کہنے لگا کل میں سگریٹ کی ڈبیا دے گیا تھا اس کے پیسے لینے آیا ہوں۔ وقار صاحب نے کہا غالبا کل تم سگریٹ کی دوڈبیاں دے گئے تھے۔ یہ لو پیسے۔ اس نے کہا جی نہیں میں صرف ایک ڈبیا دے گیا تھا۔ مجھ سے انھوں نے کہا۔ "آزاد، اس ایش ٹرے میں جلے ہوئے سگریٹ کے کتنے ٹکڑے پڑے ہیں ذرا گن کر بتاو۔" میں نے ٹکڑے گنے تعداد میں بیس تھے۔ کہنے لگے۔ "یہ لڑکا بے وقوف ہے۔ " کہتا ہے ایک ڈبیا لایا تھا دراصل یہ دو لایا تھا۔ "میں ان کی حساب دانی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔"
جب آپ روزنامہ "احسان" کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو میں اس وقت پھر بے کار تھا۔ "ملاپ" کی ملازمت ختم ہوچکی تھی۔ ایک شاعر صاحب جو "ملاپ" کے ایڈیٹر تھے مجھ سے خفا رہتے تھے۔ بات یہ ہے کہ ان کی نظموں پر سالک صاحب کے اخبار "انقلاب" میں اکثر اعتراضات ہوتے رہتے تھے۔ وہ مجھ سے کہتے تھے کہ تم ان اعتراضات کو جواب لکھو۔ جب غلط شاعری پر صحیح اعتراضات ہوں تو میں کیا جواب لکھتا۔ میں معذرت کردیتا تھا۔ انھیں یہ شک ہو گیا کہ درپردرہ ان اعتراضات کے پیچھے میرا ہاتھ ہے حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ وہ اعتراضات تو سالک صاحب کے کالم "افکار حوادث" میں ہوتے تھے اور یہ کالم سالک صاحب خود لکھا کرتے تھے۔ ان کی تحریر کی نشتریت کسی اور کے بس کی تو تھی نہیں۔ آخر میں اس صورت حال سے تنگ آگیا۔ اور "ؐملاپ" سے مستعفی ہو گیا۔
اس وقت وقار صاحب نے مجھ کہا تم "احسان" میں آجاو۔ ہم "ملاپ" سے زیادہ تنخواہ دیں گے۔ چنانچہ میں نے "احسان" کے دفتر جانا شروع کردیا۔ لیکن وہ زمانہ انتہائی فرقہ وارانہ مناقشت کا زمانہ تھا۔ ہندووں اور مسلمانوں کے ذاتی تعلقات میں تو کوئی خرابی نہیں تھی۔ اور "احسان" کے دفتر میں میری حثیت ایک مہمان عزیز کی تھی۔ لیکن وہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ مہاتما گاندھی، موتی لعل نہرو، ابو الکلام آزاد اور سبھاش چندر بوس وغیرہ کو میں ہندوستان کا نجات دہندہ سمجھتا تھا۔ ان کے خلاف "احسان" میں کچھ نہ کچھ چھپتا تھا، کبھی مجھے اس طرح کی عبارت کے پروف پڑھنا پڑتے تھے۔ کبھی کوئی نوٹ لکھنا پڑتا تھا اور طبیعیت اس کے خلاف بغاوت کرتی تھی۔ میں وقار صاحب سے اپنی اس مشکل کا بیان کیا۔ بڑی فراخ دلی سے کہنے لگے "اگر جی نہیں چاہتا تو کوئی مجبوری نہیں۔ میں تمہارے لئے کسی اور جگہ ملازمت کا انتظام کردوں گا۔" چنانچہ میں نے پانچ سات روز کام کرنے کے بعد وہاں جانا ترک کردیا۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا کہ آل انڈیا ریڈیو کی ابتدا کس سن میں ہوئی لیکن آل انڈیا ریڈیو سے پہلے لاھور میں فلپس کمپنی نے ریڈیو کی ابتدا کی تھی۔ وائی ایم سی ہال (مال روڈ) میں اس کا سٹوڈیو تھا۔ شہر میں مختلف جگہوں پر انھوں نے چند ریڈیو سیٹ رکھ دئیے تھے۔ مثلا انار کلی میں۔ ڈبی بازار میں، اندرون لوہاری دروزاہ میں جہاں شام کو لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ ریڈیو کے پروگرام سنتے تھے۔ ریڈیو کا سب سے پہلا مشاعرہ انہی فلپس والوں نے کرایا تھا۔ اس میں کہنہ مشق شعرا بھی مدعو تھے۔ اور متبدی بھی۔ کہنہ مشق شعرا میں وقار انبالوی صاحب تھے اور متبدی شعرا مٰں راقم التحریر۔ فلپس والوں کو نہ جانے کس نے مشورہ دیا کہ انھوں نے تمام شعرا کو دس دس روپے کا چیک پیش کردیا۔ میں تو دس روپے کا چیک پا کے بہت خوش ہوا۔ ریڈیو کا مشاعرہ اور پھر دس روپے معاوضہ اور کیا چاہیے تھا۔
لیکن وقار صاحب نے اسے اپنی سبکی سمجھا اور چیک کے پیچھے
"شکر نعمت ہائے چنداں کہ نعمت ہائے تو"
لکھ کر چیک واپس کردیا۔ یہ چیک واپس کرنے سے پہلے انہوں نے مجھے دکھایا۔ میں نے کہا کہ اگر چیک واپس ہی کرنا تھا یہ لکھتے۔ "عطائے توبہ لقائے تو" بہت خوش ہوئے مجھے تھپکی دی اور کہنے لگے کہ یہ مشورہ تم ہی دے سکتے تھے۔ پھرمجھ سے کہنے لگے کہ تم اپنے چیک کے پیچھے یہی لکھ کر (عطائے تو بہ لقائے تو) واپس کردو لیکن میں دس روپے کی گراں قدر دولت کیسے واپس کرسکتا تھا۔
--ماخوذ--
-----------------------------------------------------------------------------------------
کالم نگار شوکت علی شاہ صاحب جو روزنامہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں وہ بھی وقار انبالوی صاحب کے رفقا میں سے تھے۔ انہوں نے وقار انبالوی صاحب پر ایک کالم لکھا ہے جس میں وہ اپنی آپ بیتی اور ان کے ساتھ گزرے وقت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، وہ ان کو بابا جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے لکھتے ہیں کہ
وقارانبالوی صاحب ایک طویل عرصہ تک ’’نوائے وقت‘‘ سے منسلک رہے۔ بابا جی کا ادبی اور صحافتی قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ کئی اخباروں نے بھاری رقوم پیش کیں لیکن انہوں نے حرص واَز کے سمندر میں ڈوبنا گوارا نہ کیا۔ کہتے ’’نوائے وقت محض ایک اخبار نہیں ہے‘ یہ ایک نظریہ ہے جو دراصل نظریہ پاکستان سے جُڑا ہوا ہے۔ نظامی برادران کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے۔ حمید نظامی مرحوم نے قیامِ پاکستان کیلئے جدوجہد کی تو مجید نظامی ساری عمر استحکام پاکستان کیلئے کوشاں رہے‘ کئی انقلاب آئے۔ آمریت کی آندھیاں چلیں۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے اُنکی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنکے پائے استقامت متزلزل نہ ہوئے۔ مجید نظامی درویش منش انسان تھے۔ قلندرانہ طریق تھا۔ چاہتے تو دیگرانکی طرح ایک کمرشل ایمپائر کھڑی کرسکتے تھے۔ لیکن ساری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ بسر کی‘‘۔
بابا جی محض صحافی نہ تھے۔ایک منجھے ہوئے ادیب‘کہنہ مشق شاعر اور اُردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ عمروں میں نمایاں تفاوت کے باوجود وہ باوصف وہ میرے دوست تھے۔ استاد بھی تھے۔ نوائے وقت میں ’’سر راہے‘‘ لکھتے۔ ادارتی بورڈ میں بھی شامل تھے۔ نوے سال کی عمر میں بھی ’چال جیسے کڑی کمان کا تیر‘16میل ہر روز پیدل چلتے۔ اپنے گاوں سہجووال سے ویگن پر بادامی باغ اڈے پر آتے۔ وہاں سے نوائے وقت کے دفتر تک پیدل آنا اور جانا۔ اسی میں اُنکی صحت کا راز مضمر تھا۔ دفتر سے واپسی پر میرے پاس آجاتے اور پھر لمبی گپ شپ ہوتی۔ جب رحلت فرمائی تو میں انگلینڈ میں تھا۔ میں نے اُس وقت ایک خاکہ لکھا ۔ نوجوان قارئین کیلئے اُسے ایک بار پھر پیش کیا جارہا ہے۔میں اس وقت لندن کے ’’ہالی ڈے ان‘‘ ہوٹل کی کافی شاپ میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ اردو اخبار میں خبر پڑھی ’’اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی‘‘ مشہور صحافی‘ ادیب‘ شاعر‘کالم نگار‘وقار انبالوی رحلت فرما گئے۔
شدت غم سے میرا سارا وجود لرز گیا اور ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔ کچھ دیر بعد ہی ایسے محسوس ہوا جیسے بابا جی میرے سامنے کھڑے ہیں اور نیم خندہ لبی کے ساتھ فرما رہے ہیں۔’’چائے کی یہ نیم گرم بغیر چینی کے بدمزہ پیالی ختم کر ڈالو۔ کیا تمہارے چائے نہ پینے سے لوٹ آئوں گا؟ کیا میرے جانے سے دنیا کے ہنگامے دم توڑ دینگے؟ نظام کائنات میں خلل پڑجائیگا؟ تم تو گواہ ہو کہ اس دن کا انتظار میں نے برسوں کیا۔ ایک بھرپور اور طویل سفر کے بعد میں تھک سا گیا تھا۔ دوست احباب بھی غالباً اکتا گئے تھے۔ ہر روز ایک زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے۔ ’’بابا کب جارہے ہو؟ کیا سینچری مکمل کرنے کا ارادہ ہے؟ جواں مرگی کی قدر صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو زندگی کے خار زار پرپا پیادہ ایک طویل عرصہ تک آبلہ ہوئے ہوں۔
بابا جی سے میری دوستی بہت پرانی تھی اور پہلی ملاقات بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ میں ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر فیروزوالا تھا اور گورنر پنجاب جنرل سوار خان کی ہدایت پر ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کیلئے شیخوپورہ روڈ پر اپنی نگرانی میں کام کرارہا تھا۔ ہم نے ملحقہ دیہات سے ہزاروں لوگوں کو اپنی مدد آپکے تحت اکٹھا کیا اور پھول دار پودے لگانے‘ نالیوں کو صاف کرنے اور گڑھوں کو بھرنے پر لگا دیا۔ کام بہت زور شور سے جاری تھا۔لوگ ڈھول کی تال پر بیلچے اور کدالیں پکڑے کام میں جتے ہوئے تھے۔ہرطرف گردوغبار کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص میری طرف تیزی سے بڑھا اور بغیر کسی تعارف یا تمہید کے بولا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’آپ کو کیا نظر آتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کا رخ اسی کی طرف موڑ دیا۔
’’تم کون ہو؟ اور کیا ہو؟‘‘ اسکا لہجہ بڑا کھردرا تھا۔
’’یہ سوال آپ سے بھی پوچھا جاسکتا ہے؟‘‘
’’میں وقار انبالوی ہوں‘‘۔
’’انبالے میں وقار کب سے آیا ہے؟‘‘ میں نے مصنوعی حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’اسکا پتہ تمہیں کل چل جائیگا۔‘‘ وہ سٹپٹا کر بولے۔
اور واقعی دوسرے دن جب نوائے وقت کا کالم ’’سرراہے‘‘ پڑھا تو اس میں بابا جی نے ہماری خوب بھد اڑائی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر کے حوالے سے لکھا تھا کہ والی ٔ کابل امان اللہ کی ہندوستان آمد پر افسروں کو ڈھیلے جمع کرنے میں اتنی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی جتنی خاک اے سی فیروزوالا اور اسکے مجسٹریٹ سوار خان کی متوقع آمد کے سلسلے میں دکھا رہے ہیں۔ شام کو بابا جی نے مجھے فون کیا اور بولے کیسی رہی؟
’’صفائی ہوگئی ہے‘‘ آپ نے تو ہزار ہا آدمیوں کا کام اکیلے کر ڈالا۔ بابا جی بے ساختہ مسکرائے۔
بابا جی بڑے صاف گو انسان تھے۔ حاسد اسی صاف گوئی کو ان کی تلخ مزاجی گردانتے تھے۔ ویسے بابا جی کی حق گوئی کا عالم یہ تھا کہ زہرہلاہل کو زہر ہلاہل تو کہتے ہی تھے۔ قند کو بھی قند نہیں رہنے دیتے تھے۔ کیسی ہی شیریں رسیلی چیز ہوتی بابا جی کی نوک زبان سے لگ کر کڑوی کسیلی بن جاتی لیکن اس تلخ نوائی کے پیچھے کوئی کدورت نہ ہوتی۔ یہ تو ان کا انداز تکلم تھا وہ دبنگ انسان تھا۔طریق قلندرانہ تھا۔ جہاں جرأت رندانہ اور روشِ فقیرانہ یکجا ہوجائیں تو انسان اندیشہ ہائے سود و زیاں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بابا جی کی فطرت کا خمیر انہی عناصر سے اٹھا تھا۔ انکی ساری زندگی اسی اکھڑ پن سے عبارت تھی۔ شاید وہ ’’انانیت‘‘ کے اس موڑ پر پہنچ چکے تھے جہاں سے لوٹنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی بس میں نہیں رہتا۔
انکے مزاج کا یہ عالم تھا کہ اپنی اولاد سے بھی بے سبب نہ ملتے۔ ان کا ایک بیٹا ائیر فورس میں کمانڈر تھا۔ دوسرا وائس آف امریکہ میں کام کرتا تھا۔ بیٹی برکلے یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔ ایک دن میں پوچھ بیٹھا کہ بچوں سے آپ کی ملاقات کب ہوتی ہے؟ ایک کرب آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے ’’بڑے…کے بچے ہیں۔ مصالحہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا ہے۔ بڑا ائیرفورس والا کہتا ہے کہ ابا جی جب میں خط نہ لکھوں تو سمجھ جائیں کہ ہم سب خیریت سے ہیں۔
’’تو پھر؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’تو پھر وہ یقیناً سب خیریت سے ہوں گے۔‘‘
بابا جی مشق انانیت میں اپنی ذات کو بھی معاف نہ کرتے تھے۔دوسروں کو چھوڑ دینا تو بہت دور کی بات تھی۔ ایک بار مجھے چندمجرموں کی سرکوبی مطلوب تھی۔ بابا جی سے ذکرہوا تو بولے جنرل کے ایم عارف سے بات کرتے ہیں۔ تمہاری طرح وہ بھی میرا شاگرد رہا ہے۔ مارشل لاء کا دور تھا۔ جنرل عارف‘ ضیاء الحق مرحوم کے بعد سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے۔ بابا جی نے انہیں فون کیا تو انکے پی اے نے چند منٹ انتظار کرایا۔ شاید جنرل صاحب دوسرے فون پرکسی سے بات کررہے تھے۔ جنرل صاحب نے جیسے ہی ’’ہیلو‘‘ کہا بابا جی برس پڑے ’’میں اس عارف سے بات کرنا چاہتاہوں جو کبھی علم دوست تھا‘ شاعر تھا‘ خلیق اور ملنسار تھا۔ جس نے میرے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔ آپریٹر نے مجھے کسی جنرل سے ملادیا ہے جس کی روش حاکمانہ ہے۔ طور طریق شاہانہ ہیں۔ اب جنرل صاحب ہیں کہ بار بار معذرت کررہے ہیں۔ آپریٹر کی سرزنش کرنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ ’’حکم‘ ارشاد‘‘ کی گردان کر رہے ہیں لیکن بابا جی کا پارہ جو ایک سو ڈگری پر پہنچا ہوا تھا نیچے نہ آیا اور طیش میں فون بند کردیا۔ غیظ کے اس عالم میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ فون کرنے کا مدعا کیا تھا۔
’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ کا مسودہ مکمل ہوا تو صرف و نحو کے سلسلے میں انہیں دکھایا۔ وہ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ لیکن مسودے کا پہلا صفحہ دیکھتے ہی اسے میز پر پٹخ دیا اور ہفتوں سرزنش کرتے رہے کہ ’نہ‘ کے ساتھ ’ہی‘ کیوں لگاتے ہو؟ ایک دن تنگ آکر میں نے کہا۔ اگر میں’’نہ‘‘ اور ’’ہی‘‘ کے جوڑ میں مضمر خرابیوں سے آگاہ ہوتا تو آپ جیسے اکھڑ شخص سے دوستی کیوں کرتا؟
بابا جی مسکرا پڑے اور بولے ۔’’ہاں یہ بات تو ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی شفقت اور محنت کے ساتھ سارا مسودہ پڑھا اور چند واضح غلطیوں کی نشاندہی کی۔
بالآخر مسودہ مکمل ہوا تو پوچھنے لگے۔ ’’کتاب کس پبلشر سے چھپوائو گے؟‘‘
عرض کیا ’’میں اس کوچہ میں بالکل نو وارد ہوں اور کسی پبلشرکو نہیں جانتا۔
’’فکر نہ کرو۔‘‘ وہ میرے کندھے کو تھپتھپا کر بولے۔ اردو بازار میں میرا ایک پبلشر دوست ہے وہاں چلتے ہیں اس سے زیادہ دیدہ زیب کتاب اور کوئی نہیں چھاپتا۔‘‘
’اس شہر میں آپ کا کوئی دوست بھی ہے؟‘‘ میں نے انہیں چھیڑا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ بابا جی چہرے پر مصنوعی غصہ طاری کرتے ہوئے بولے۔
’’میرا مطلب ہے بڑے آدمی کسی کے دوست نہیں ہوتے؟‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ عرض کیا ایک مرتبہ جارج برنارڈ شا کا ڈرامہ لندن میں سٹیج ہورہا تھا۔ شانے برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو دو ٹکٹ بھجوائے اور ساتھ ہی ایک رقعہ لکھا:
Come to see my play with a friend if you have a friend.
’’پھر چرچل نے کیا جواب دیا؟‘‘ بابا جی کا اشتیاق بڑھنے لگا۔
’’چرچل نے جواباً لکھا۔
"i am busy for the opening, but i will come the second night, if there is a second night.
’’لیکن اس مثال کا انطباق مجھ پر کیسے ہوتا ہے؟‘‘ بابا جی سن کر مسکرائے۔
’’آپ بھی صحافت کے چرچل ہیں۔‘‘
’’اچھا اب یہ خرافات بند کرو اور چلو میرے ساتھ‘ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ میرا حلقہ احباب کتناوسیع ہے۔‘‘ بابا جی مسودہ اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جب ہم پبلشر کی دکان پر پہنچے تو اس نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بابا جی کو وہ بڑے احترام سے ملا اور بڑے مودبانہ لہجے میں پوچھا۔ حضرت آج کیسے تکلیف فرمائی۔ حکم کرتے خود حاضر ہوجاتا۔ چائے منگوائوں یا ٹھنڈا پئیں گے؟
کہنے لگے۔ ’’تکلفات میں نہ پڑو۔ شوکت نے بلوچستان پر بڑا خوبصورت سفرنامہ لکھا ہے اسے پڑھ کر چند ماہ میں چھاپ دو۔‘‘
پبلشر بولا۔’’قبلہ اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو پھر عرق ریزی کی مزید گنجائش نہیں رہتی‘‘ فرمایا’’چونکہ کتاب تمہیں چھاپنا ہے اس لیے مناسب ہوگا کہ ایک نظر دیکھ ہی ڈالو۔‘‘
’’اگر آپ کہتے ہیں تو میں اسے جُستہ جُستہ دیکھ لیتا ہوں۔‘‘
’’جَستہ جَستہ‘‘ بابا جی نے اسے کچھ اس طرح گھورا جیسے اس نے ساری اردو زبان کو زیر زبر کردیاہو۔ موصوف نے بڑی سبکی محسوس کی لیکن اس خجالت کو وہ ایک کڑوے گھونٹ کی طرح پی گیا اور چائے میں چینی ملانے لگا۔ کچھ دیرتک ادھر اُدھرکی باتیں ہوتی رہیں جب ہم نے اجازت چاہی تو نہ جانے کیسے بے خیالی میں وہ پھر وہی الفاظ دہرا بیٹھا۔ میں جُستہ جُستہ دیکھ لوں گا۔ اب کے بابا جی باقاعدہ کڑکے اور ان کی آنکھوں سے سرزنش کے شعلے برسنے لگے۔ پبلشر نے ہاتھ جوڑ دئیے۔ حضرت مسودہ واپس لے جائیے۔ میری عقل کے ساتھ ساتھ مشین بھی کچھ ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہی۔ شاید آپ کی توقعات پر میں پورا نہ اتر سکوں۔ جب ہم دکان سے باہر نکلے تو میں نے بابا جی کی طرف غصے سے دیکھا ان کے چہرے پر تاسف یا معذرت کی کوئی رمق نہ تھی۔ کہنے لگے اب سمجھ آتی ہے کہ میر نے دہلی سے لکھنؤ تک چپ کا روزہ کیوں رکھا تھا۔
بابا جی نوے کی دہائی میں پہنچ کر بھی بے حد پھرتیلے تھے۔ خاصے لمبے قد کے تھے لیکن جسم میں خم نظر نہ آتا تھا۔ بلم کی طرح سیدھے تھے اور کمر کے زاویے پلنگ صورت تھے۔ تین چار روغنی نان اور چرغہ اس طرح کھا جاتے تھے جیسے کوئی بچہ ہمک کر ایک گلاس دودھ پیتا ہے۔ روزانہ میلوں پیدل چلتے تھے۔ بادامی باغ سے نوائے وقت کے دفتر اور کام ختم کرنے کے بعد بادامی باغ‘ گرمی سردی یا بارش ہو کوئی حالت یا کیفیت ان کے اس شوق سے مزاحم نہ ہو سکتی۔ کہنے لگے۔
نظامی صاحب نے کار کی پیشکش کی ہے لیکن میں نے معذرت کر لی ہے کیونکہ میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا۔ بس خواہش ہے کہ یونہی چلتے پھرتے دم نکل جائے چونکہ طبیعت میں لا ابالی پن تھا اس لئے سہجووال سے لاہور پہنچتے پہنچتے اکثر ویگن ڈرائیوروں سے جھگڑ پڑتے اور اس کا نزلہ مجھ پر ہی گرتا۔ غصے سے کہتے۔
’’شوکت کیا تمہارا ڈسپلن اور رعب داعب ختم ہو چکا ہے؟ پہیوں پر ڈرائیور نہیں ڈاکو اور غنڈے بیٹھے ہیں۔ کرایہ ٹکٹ پر نہیں بلکہ ان کی زبان پر لکھا ہوتا ہے پھر بات اس طرح کرتے ہیں جیسے گنوار لڑتے ہیں۔ پھر ایک مشکوک سی نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے کہتے۔ سچ سچ بتاؤ کہیں تمہاری ٹرانسپورٹروں سے ملی بھگت تو نہیں ہے؟‘‘
دوسرے دن جب ڈرائیور گرفتار ہو کر حوالات چلا جاتا اور گاڑی تھانے میں بند ہو جاتی تو جو سب سے پہلی سفارش آتی وہ بابا جی کی ہوتی۔ ’’کیا غریب کو مار ہی ڈالو گے؟ بس کرو۔ اتنا ظلم بھی اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ بابا جی دراصل دل کے بڑے نرم تھے۔ ان کا غصہ برسات کے بادل کی طرح تھا۔ برسا اور چلا گیا۔ ڈرائیور کے اہل و عیال جب معافی مانگنے بابا جی کے گاؤں جاتے تو ان کا دل پسیج جاتا اور الٹا جیب سے کرایہ دے کر انہیں رخصت کرتے۔
وقار انبالوی صحیح معنوں میں نڈر‘ بے خوف انسان تھے۔ جن دنوں حکومت کے خلاف یہ ایک تسلسل اور تواتر سے لکھ رہے تھے شاہ سے بھی زیادہ وفادار مسعود محمود نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’بابا جی اب آپ کی یہ عمر نہیں ہے کہ جیل کے جھٹکے اور پولیس کے ڈنڈے کھا سکیں۔ آپ عمر کے اس مرحلہ پر ہیں جہاں ایک جاندار دَبکا بھی چراغ زیست کی لو سرد کر سکتا ہے۔ صحافت اس وقت تک ہی چل سکتی ہے جب آدمی اپنے ہاتھ سے لکھے اور اپنے پاؤں پر چل کر دفتر تک پہنچے۔‘‘
بابا جی کے تاثرات جاننے کے لئے اس نے اپنی کالی عینک کے شیشوں میں سے جھانکا اور مونچھوں پر ہلکا ہلکا تاؤ دینے لگے۔
بابا جی پان والا پیک قریباً اس کی طرف اچھالتے ہوئے بولے۔ ’’مسعود! میں تمہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب تمہیں پولیس میں ٹامی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ تمہاری اخلاقی صحت تو پہلے ہی کمزور تھی اقتدار نے تمہارے دماغ میں بھی فتور ڈال دیا ہے۔ میں اپنے مسلک سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ تم نے جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو۔‘‘
بابا جی کو سنسکرت زبان اور ہندو مائتھالوجی‘ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے اور بڑے مزے لے کر فرماتے۔
’’ہندو مائتھالوجی کو سمجھنا بہت مشکل ہے اور اس میں داخل ہونا جان جوکھوں کا کام ہے۔ بالفرض کوئی شخص داخل ہو بھی جائے تو پھر اس کے اثرات سے بچ نکلنا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ ہندو دیومالا ان گہرے‘ لمبے اور تاریک گھپاؤں کی طرح ہے جس میں ہیرے جواہرات بھی ہوتے ہیں اور حشرات الارض بھی۔ انسان راز حیات پا بھی سکتا ہے اور قید حیات سے آزاد ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ ہندو مائتھالوجی کا یونانی دیو مالاؤں سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے۔ ہر چند کہ ان دونوں میں کسی حد تک مماثلت ہے لیکن ہندو مائتھالوجی میں جو رومانیت ہے اس کا مزہ‘ گریک مائتھالوجی‘ میں نہیں آتا۔ وہاں بھی گاڈ اور گاڈسسز ہیں۔ یہاں بھی دیوتاؤں اور دیویوں کی بھرمار ہے۔ وہاں بھی قربانی کا تصور ہے یہاں بھی رسومات میں اس کو خاص مقام حاصل ہے۔ وہاں بھی سب سے اہم جنگ ایک عورت کیلئے لڑی گئی تھی۔ یہاں بھی راون کی لنکا ایک عورت کیلئے ڈھا دی گئی لیکن ان ہر دو جنگوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ہیلن بے حد خوبصورت سہی لیکن ایک بدقماش عورت تھی جو اپنے عاشق (پارس) کے ساتھ بھاگ گئی اور اس طرح ایک ایسی جنگ کا موجب بنی جس کی تفصیل کا ہر ورق خاک اور خون میں لتھڑا ہوا ہے اور یونانی شہزادوں کا جنگ میں شریک ہونا اخلاقی تقاضوں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ محض ہیلن کے جسم کو حاصل کرنے کی ہوس تھی جو انہیں کشاں کشاں ٹرائے تک لے گئی۔ اس کے برعکس سیتاپتی ورتن اور ستی ساوتری تھی جس نے ایک راکشش کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور رام جی نے اپنے آدرشوں اور وقار کی خاطر جنگ لڑی۔ رام اور راون محض دو نام نہ تھے بلکہ وہ نیکی اور بدی کی طاقتوں کے نمائندے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے شوق اور تجسس کا یہ عالم تھا کہ نوجوانی کے دنوں میں بھیس بدل کر ایک طویل عرصے تک سیتلا مندر میں رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ گوپیوں کے درمیان یہ گوپلو کہاں سے آ گیا ہے۔
بابا جی کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور مشاہدہ نہایت عمیق‘ ہر چند کہ انگریزی زبان سے ان کی رسمی علیک سلیک تھی۔ اردو‘ ہندی‘ سنسکرت‘ عربی‘ فارسی پر انہیں بڑا عبور حاصل تھا۔ پنجابی ہوتے ہوئے بھی ایسی شستہ اردو بولتے کہ اہل زبان عش عش کر اٹھتے۔ صرف صاحب علم ہی نہ تھے‘ عالموں کی قدر بھی کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑا بے لاگ تبصرہ بھی کرتے۔
توکل اور قناعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سادہ لباس پہنتے‘ سادہ غذا کھاتے۔ ایک لمبا کھدر کا کرتا یا پاجامہ نما شلوار اور دیسی چپل اور صدری۔ پان کے شوقین تھے۔ اپنا پاندان رکھتے اور لکھنوی انداز میں چھوٹی چھوٹی گلوریاں بنا کر وقفے وقفے سے کلے میں دباتے رہتے۔ ان کے توکل کا یہ عالم تھا کہ ایک دن میرے دفتر تشریف لائے اور زیورات کی پوٹلی میز پر رکھتے ہوئے بولے۔ ایک شادی میں شرکت کرنی ہے اور بیگم ایک عزیز کے ہاں انتظار کر رہی ہے جلدی سے کوئی اچھی سی ٹیکسی منگوا دو۔
میں نے کہا ’’آپ اور یہ زیورات کا ڈبہ؟‘‘
ہنس کر بولے ’’عورت کیلئے زیورات کے مقابلے میں خاوند ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ تین دفعہ فون کر چکی ہے کہ لاکر سے زیورات نکلوا کر جلد پہنچو۔‘‘
میں نے ہیڈ کانسٹیبل کو بھیج کر ٹیکسی منگوائی۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد گھبرائے ہوئے آئے اور کہنے لگے۔ شوکت غضب ہو گیا ہے۔ زیورات کی تھیلی ٹیکسی میں رہ گئی ہے۔ ٹیکسی کا نمبر بھی یاد نہیں بیگم سخت پریشان ہے اور مجھے جلی کٹی سنا رہی ہے۔‘‘
بات بڑی پریشان کن تھی لیکن اتنے بڑے شہر میں ہزاروں گاڑیوں میں سے بغیر نمبر جانے گاڑی کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ میں نے کہا۔
’’بابا جی زیورات کا ان حالات میں ملنا کسی معجزے سے کم نہیں پھر بھی کوشش کر دیکھتے ہیں‘‘
کچھ دیر سوچتے رہے پھر مسکرا دیئے‘ بولے۔ ’’تمہاری بات درست ہے۔ زیورات کا ملنا عام حالات میں شاید ممکن نہ ہو لیکن اگر حق حلال کی کمائی کے ہیں تو ضرور مل جائیں گے۔ نہیں تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنی ڈیوٹی میں تساہل برتا ہے۔ چلو اب منگواؤ نان اور سری پائے‘‘
ہم کھانا کھا ہی رہے تھے کہ چپڑاسی نے آ کر کہا کوئی ٹیکسی ڈرائیور آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے زیورات کی تھیلی بابا جی کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’حضرت شکر کریں کہ پچھلی سیٹ پر میری نظر پڑ گئی نہیں تو اب تک پتہ نہیں یہ کہاں پہنچ جاتی۔‘‘
’’یہ کہیں بھی نہیں جا سکتی تھی۔‘‘ بابا جی نے تھیلی لیتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ ’’دیکھا! کہا نہیں تھا کہ حلال کی کمائی کی چیزیں گم نہیں ہوتیں۔‘‘ بابا جی نے ٹیکسی ڈرائیور کو سو روپے کا انعام دینا چاہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر اسے روپے پیسے کا لالچ ہوتا تو اتنی دور سے ہزاروں روپے کے زیورات کیوں لوٹانے آتا۔‘‘
’’لے لو‘‘ میں نے ازراہِ تفنن اسے مشورہ دیا۔ بڑے بڑے جغادری ان سے سوا روپیہ تک نہیں نکلوا سکے۔‘‘
’’دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر۔‘‘ بابا جی نے طنز کا رخ میری طرف موڑ دیا۔
’’ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی سطح اور قابلیت کے مطابق بات کرتے۔ علمی اور ادبی محفلوں میں بڑے بڑوں کو چپ کرا دیتے۔ اس اعتماد اور وثوق سے تقریر کرتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے اور انہیں یہ کہنا پڑتا کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ عام آدمی سے اس کے لب و لہجے میں گفتگو کرتے۔ جوانوں کی محفل میں جوان نظر آتے۔ ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ ساتھ ساتھ ڈالڈا اور پاؤڈر ملک کی زد میں آئے ہوئے نوجوانوں کو چند نسخے اور راز کی باتیں بھی بتاتے جاتے۔‘‘
آخری عمر میں انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر کھجوریں‘ تسبیح اور آبِ زم زم خاص طور پر میرے لئے لے کر آئے۔ کھجور کے دانے کو چکھ کر میں نے کہا مجھے تو یہ مکران کی بیگم جنگل (کھجور کی ایک قسم) لگتی ہے۔ آخر آپ کا یہ بیگمات کا شوق نہیں گیا۔
بابا جی نہایت عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ برجستہ اور برمحل شعر کہنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ خود بھی بہت اچھے شعر کہتے۔ ہر چند کہ انہوں نے زیادہ شعر نہیں کہے لیکن ان کے فن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اس شعر کو …؎
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللّٰہی، اک سجدئہ شبیری
لوگ علامہ اقبال کا شعر سمجھ کر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ اخبار کیلئے لکھے جانے والے قطعات نے البتہ ان کی شاعری کو ضرور متاثر کیا۔ ایک دن خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بولے۔ قطعات میں ہر روز اچھا شعر نہیں لکھا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو موضوع کا خشک پن ہے اور دوسرے فرمائش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر قطعہ فوراً موزوں کر دیجئے۔ اب ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشعار پڑھ کر وجدان پر گھنٹیاں ہی بجیں گی شہنائی کی آواز نہیں آئے گی۔
---ماخوذ-----
-----------------------------------------------------------------------------------
ایثارِ حُسن
(وقار انبالوی )
1931 میں فرانس کے ایک مشہور مقتدر رکن حکومت قوت بینائی سے محروم ہو گئے۔۔۔اُنہوں نے اپنی منگیتر سے کہا۔کہ میں اب اندھا ہو گیا ہوں اور اس قابل نہیں رہا کہ محبت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکوں۔۔لیکن غیرت مند منگیتر نے جواب دیا۔کہ یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا ۔۔میں اپنی محبت میںثابت قدم ہوں۔۔۔چنانچہ دونوں کی شادی ہو گئی۔۔
" مجبورِ مشیّت "
بہت گہرا ہے گرچہ دل پر الفت کا اثر پیاری
مگر قدرت نے مجھ سے چھین لی حسن بصر پیاری
مری دنیائے عشرت پر اندھیرا چھا گیا یکسر
اب ان آنکھوں سے کچھ آتا نہیں مجھکو نظر پیاری
میں اب بھٹکونگا مستقبل کی اُن تاریک راہوں میں
جہاں کام آ نہیں سکتا ہے کوئی راہبر پیاری
محبت کا تری معترف ہوں ۔ کیا کروں لیکن؟
نبھانے کی کوئی صورت نہیں آتی نظر پیاری
بن آئے کیا ۔ مشیت ہی جو محرومِ نظر کر دے !
بھُلا دے اپنے دل سے مجھکو قصہ مختصر کر دے
" مُختارِ محبت "
یہ مانا ! آدمی بے شک ہے مجبورِ مشیت بھی
مگر تم ساتھ بینائی کے کھو بیٹھے بصیرت بھی
تعجب ہے ہوئے جاتے ہو تم مایُوس کیوں آخر؟
بھُلا دی تم نے اپنے دل سے کیا میری محبت بھی
محبت امتیازِ کور و دیدہ ور سے بالا ہے
سمجھتے ہو مجھے تم۔ آہ ! کیا ننگِ محبت بھی
رہونگی میں شریکِ حال پیارے رنج و راحت میں
مصیبت آپڑے تو میں اٹھاؤنگی مصیبت بھی
تمہاری شکل میرے واسطے جیسی ہے اچھی ہے!
تم اندھے ہو تو کیا غم ہے محبت خود بھی اندھی ہے
ان کی ایک اور نظم جس میں وہ ’’غازی علم کو سلام‘‘ میں روح روانِ ملّت اسلام غازی کو سلام تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سلام اے ننگ و ناموس وطن کے پاسباں غازی
سلام اے ملّت اسلام کے روح رواں غازی
سلام اے رحمت للعالمیںؐ کے پیروِ صادق
سلام اے فاتح خیبرؓ کی قوت کے نشاں غازی