بے شک اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی معاشرے میں لائبریریز کا قیام اس معاشرے کی ترقی کے لیے ایک اہم اور بنیادی قدم ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے لائبریریز کا قیام نہایت اہم ہے۔ لائبریریز نہ صرف طالب علموں کی پڑھائی اور ریسرچ میں ان کی مدد کرتی ہیں بلکہ کہ محققین، دانشوروں، ادبی، علمی اور صحافتی لوگوں کی بھی پیاس بجھاتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی اور اسلام کا پرچم عرب کے تپتے ہوئے ریگستانوں سے نکل کر سمرقند، بخارا، تاشقند ،قرطبہ، غرناطہ، ایشیا، وسطی افریقی ریاستوں اور یورپ تک لہرا رہا تھا۔ مسلمانوں نے اس دور کی دو بڑی سپر پاور روم اور ایران کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ ان تمام فتوحات میں جہاں مسلمانوں کی قوت ایمانی اور جنگی حکمت عملیوں کا ایک بڑا دخل تھا وہاں مسلمانوں کی علم میں ترقی بھی ایک بہت بڑاپہلو تھا۔ اس دور میں مسلمانوں نے دنیاوی علموم میں بے حد ترقی کی، قاہرہ اور بغداد کے اندر دنیا کی سب سے بڑی لائبریریز کا قیام عمل میں آیا جہاں دنیا بھر سے علم کے پیاسے آکر اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ مسلمانوں نے کئی ایسے سائنسی علوم کی بنیاد رکھی جو آج کی جدید یونیورسٹیوں میں پڑھائے جارہے ہیں۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ جب 1258 عیسوی میں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی خلافت کا شیرازہ بکھیر دیا اور بغداد کے اندر موجود دنیا کی سب سے بڑی لائبریری کی ان گنت تاریخی اور نایاب کتب کو اٹھا کو دریائے دجلہ میں ڈال دیا، مورخ لکھتے ہیں کہ دجلہ کا پانی ان کتابوں کی سیاہی کی وجہ سے نیلا ہو گیا تھا۔ اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کے زاول کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آج تک جارہی ہے۔ آج بھی دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں کسی بھی اسلامی ملک کی یونیورسٹی کا نام نہیں آتا۔
سوال یہ ہے کہ پبلک لائبریری ہوتی کیا ہے ؟
ایک پبلک لائبریری وہ لائبریری ہوتی ہے جس تک عام عوام کی رسائی ہوتی ہے اور یہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے بنائی جاتی ہے۔ اور یہ سرکاری ملازمین کے زیر انتظام چلائی جاتی ہے۔ کسی بھی پبلک لائبریری کے اندر پانچ خصوصیات ہوتی ہیں۔
یہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے بنائی جاتی ہیں جس میں اگر ضرورت پڑھے تو گورنمنٹ بھی فنڈ ڈال سکتی ہے۔
یہ عام پبلک کے مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔
یہ ہر کسی کے لیے اوپن ہوتی ہے اس کی کتب کو ہر کمیونیٹی کا ممبر حاصل کرسکتا ہے۔
یہ مکمل طور پر رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہے اس میں کسی بھی ممبر کو یا خدمات دینے والے کو کسی بات پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
اور یہ عوام کو بنیادی سروسز بغیر کسی معاوضے کے مہیا کرتی ہے۔
شرقپور شریف کی سر زمین نے بے شمار دانشوروں، صحافیوں، شاعروں، سیاست دانوں اور علما کرام اور مشائخ کرام کو جنم دیا ہے۔ جن کی ادبی سربلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاوں سے ابھر کر لامحدود دنیائے علم وادب کا حصہ ہی نہیں بلکہ علم اودب کا افتخار اور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔
شرقپور شریف کو ایک علمی وادبی شہر کہا جاسکتاہے۔ یہاں کے علم دوست حضرات کے ہاں ان کے ذوق کی کتابیں ہیں۔ جوان کے ذاتی کتب خانوں کی زینت ہیں۔ کچھ کتب خانے کاروباری نقطہ نظر سے بنائے گئے ہیں۔ ان کتب خانوں میں زیادہ تر ناول ہوتے ہیں۔ اور بعض میں ایسی کتابیں بھی ہیں جو مخرب الاخلاق قسم کی ہیں۔ شرقپور شریف میں کتابیں فروخت کرنے والے کتب خانے مخص سکولوں کی کتابیں بیچتے ہیں۔ عام کتابیں نہیں۔ کچھ ایسے کتب خانے ہیں جہاں سے علمی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کتب خانے دو طرح کے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کی لائبریریاں اور ذاتی کتب خانے مگر ان تک عام عوام کی رسائی نہیں ہے۔ آپ ان کی مزید تفصیل ہماری ویب سائیٹ شرقپور ڈاٹ کام کے درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
http://sharaqpur.com/Libraries.aspx
اب ضلع شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 165 شرقپور کے اندر ایم پی اے اور پارلمیانی سیکرٹری چوہدری علی اصغر منڈا کی جانب سے ایک پبلک لائبریری کے قیام کا افتتاح نہایت خوش آئند بات ہے اور یہ ان کے علم دوست ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ لیکن ان کو یاد دیہانی کے طور یہ باور کرواتا چلوں کہ انہوں نے اس پبلک لائبریری کے متعلق ماضی قریب میں بھی متعدد بار اعلان کیا تھا اور اس لائبریری کے لیے فنڈ کے ایشو ہونے کا بھی اعلان کیا تھا مگر یہ وعدے کبھی بھی پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکے اور اب ایک بار پھر انہوں نے اس لائبریری کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا ہے اور اس مالی سال میں فنڈ ایشو ہونے کی نوید بھی سنا دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بار بھی پچھلے وعدوں کی طرح ان کا یہ وعدہ بھی وفا ہوسکے گا؟ میرا مقصد اس نیک کام پر تنقید کرنا نہیں مگر ان وعدوں کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ حوالے کے طور پر کچھ لنک درج ذیل میں پوسٹ کررہا ہوں۔
9دسمبر 2014 کو انہوں نے پی ٹی وی کے نمائندے کو انٹریو دیتے ہوئے کہا تھا کہ
وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے شیخوپورہ کے علاقوں شرقپور اور فیض پورمیں دس کروڑ روپے کی لاگت سے دو جدید انٹرنیٹ کی سہولتوں سے مزین لائبریروں کے قیام کی منظوری دیتے ہوئے فنڈز جاری کر دیے ہیں اگر وہ فنڈ 2014 میں جاری کردیے گئے تھے پھر وہ فنڈ کہاں گئے اور ایک بار پھر اس کا اعلان کیوں کیا جارہا ہے۔
http://sharaqpur.com/NewsInformation.aspx?nid=59
24جون 2015 کو ایک بار پھر انہوں نے بجٹ 2015 میں شرقپور شریف اور فیض پور خورد میں پبلک لائبریریاں منظور ہونے اور ان کے لئے 9 کروڑ کی رقم جاری ہونے پر اہل علاقہ کو مبارک باد دی اور انہوں نے وزیر اعلی پنجاب میاں شھباز شریف کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی پروپوزل پر بخوشی اس کی منظوری دیتے ھوئے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے میاں شفیق منڈا کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فیض پور خورد میں لائبریری کے لئے اپنی قیمتی جگہ وقف کی۔
http://sharaqpur.com/NewsInformation.aspx?nid=20197
7نومبر 2015 کو ایک بار پھر انہوں نے شرقپور شریف کے امیدوار برائے جنرل کونسلر ملک خالد محمود وارڈ نمبر 4 کی کارنر میٹنگ جو رانا طلعت حسین کے گھر بھٹی ٹاون میں منعقد ہوئی جس میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد شرقپور میں ریسکیو 1122 سروس جس کے سنٹر کا قیام نزد جوئیہ فش کارنر نزد ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے قریب عمل میں لایا جائے گیا اور اس کے علاوہ شرقپور کے لیے ایک پبلک لائبریری کا قیام بھی بہت جلد عمل میں لایا جارہا ہے۔
http://sharaqpur.com/NewsInformation.aspx?nid=30393
اب ایک بار پھر 24 ستمبر 2016 کو انہوں نے نہ صرف پبلک لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا بلکہ اس مالی سال میں اس کے لیے ایک بار پھر فنڈ جاری ہونے کی نوید سنا دی۔ اب سوال یہ ہے فنڈ ایشو ہونے کی نوید تو آپ پہلے بھی 2 مرتبہ سنا چکے ہیں۔ اوراب یہ تیسری بار ہے۔
http://sharaqpur.com/NewsInformation.aspx?nid=50710
میری دعا ہے کہ اللہ کرے کے شرقپور کی عوام کے لیے ایک پبلک لائبریری کا قیام جلد ممکن ہو سکے اور اللہ آپ کی اس نیک کام میں مدد کرے مگر عوام سے وعدے وہ کریں جو عوام کے مفاد میں ہوں اور پورے ہوں صرف ووٹ لینے کے لیے ان سے وعدے نہ کریں۔ کیونکہ یہ عوام ہر مہینے بجلی، پانی، گیس، ٹیلیفون، خورد نوش کی اشیا پر ٹیکس دیتی ہے اور وہ ٹیکسوں کا پیسہ اس عوام پر لگنا ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے اس عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو کسی اور جگہ لگا دیا جاتا ہے جہاں سے ووٹ اکھٹے ہونے کی امید ہوتی ہے۔
(ملک عثمان شرقپور ڈاٹ کام)