تعلیم انسان کے شعور کے جلا بخشتی ہے۔ پھر اس انسان کی طرز گفتگو اور معاملات حیات سے اس انسان کے اندر کا انسان دکھائی دینے لگتا ہے۔ گویا کہ جیسی تعلیم ہو گی ویسے ہی اس کی حیات آئینہ میں انسان نظر آتا ہے۔ دینوی تعلیم انسان کو محض دنیا دار بنائے گی اور دینی تعلیم سے انسان میں دینی اقدار پیدا ہوں گی۔
پاکستان بننے سے پیشتر دینی تعلیم کا فقدان تھا۔ اگر کہیں دینی مدارس تھے تو وہ بھی بڑی دور دور تھے۔ لوگ بس انگریزی تعلیم کے دلدادہ تھے۔ حضرت قبلہ ثانی لاثانی میاں غلام اللہ برادر حقیقی حضرت میاں شیرمحمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانوں کی اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔ لہذا آپ نے 1944 عیسوی میں شرقپور میں ایک جامعہ میاں صاحب کے نام سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
اس مدرسہ کی بنیاد رکھنے سے قبل آپ نے ایک تنظیم تشکیل دی جس کا نام حزب الرسول رکھا۔ جس کے سرپرست حضرت قبلہ ثانی لاثانی میاں غلام اللہ صاحب تھے۔ اب اس تنظیم کے مشورہ سے ریاض المسلمین کے نام سے مدرسہ کا اعلان فرمایا۔ ریاض المسلمین نام کی تجویز اور فیصلہ حزب الرسول کا تھا۔ مگر ثانی صاحب دلی طور پر اس نام سے متفق نہ تھے۔ چونکہ جمہور کا فیصلہ تھا لہذا آپ نے اس کی تردید میں کوئی بات نہ کی۔ مگر لوگ اس مدرسہ کو میاں صاحب کا درس کہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس مدرسہ کا نام ریاض المسلمین کی بجائے جامعہ حضرت میاں صاحب شہرت پا گیا۔ پھر یہی نام مدرسہ کی بلڈنگ کی پیشانی پر لکھا گیا۔ اور اسی نام سے فارغ التحصیل طلبا کو اسناد دی جانے لگیں۔
ابتدا میں یہ مدرسہ میاں صاحب کی جامع مسجد میں قائم کیا گیا۔ مدرسہ کیا قائم ہوا مسلمانوں کو خوشی کی ایک نوید مل گئی۔ اور یہ خبر پھولوں کی خوشبو بن کر دور دور تک پھیل گئی۔ پھر کیا تھا مسجد میں اس قدر طلبا اکٹھے ہو گئے کہ نبی پورہ والی مسجد کے پاس ایک مکان میں یہ مدرسہ بنایا گیا مگر یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی پھر بازار حافظاں میں جو اب دربار روڈ کے نام سے مشہور ہے حافظ ملک نور علی کا مکان جو بہت بڑا ہے کرائے پر حاصل کر کے مدرسہ وہاں منتقل کردیا گیا اور تدریس علوم کا کام شروع ہو گیا۔
طلبا کے لنگر کے انتظام کے لیے مالی وسائل نہ تھے۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے کجا سکیم رائج کی گئی۔ ہر گھر میں ایک ایک کجا دیا گیا۔ عورتیں آٹا گوندتے وقت مٹھی بھر آٹا اس میں ڈال دیتی تھیں۔ دوہفتے کے بعد آٹے بھرے ہوئے یہ کجے لنگر خانے میں آجاتے تھے۔ یہ سکیم بڑی کامیاب رہی۔
اس کرائے کے مکان میں 3 سال تک مدرسہ قائم رہا پھر عیدگاہ روڈ پر دربار بابا گلاب شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے ساڑھے تین کنال جگہ خرید کر باقاعدہ نقشہ کے مطابق کشادہ اور شاندار عمارت بنائی گئی۔ جس کا افتتاح 15 دسمبر 1951 عیسوی بمطابق 15 ربیع الاول 1371 ہجری میں ہوا اور مزید 5 سال گزرنے کے بعد یعنی 29 فروری 1956 عیسوی بطابق 17 رجب 1375 ہجری میں جامعہ کی عمارت کا حصہ دوم بھی بن گیا۔ اس حصہ میں دینوی تعلیم کے لئے پرائمری سکول کا اجرا ہوا اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ میاں صاحب میں لڑکیوں کے لئے پرائمری سکول بن گیا۔
چونکہ اس ادارہ کی بنیاد خلوص اور للٰہیت رکھی گئی تھی اس لئے اسے جو عروج حاصل ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس ادارہ سے ہزاروں حفاظ، علما، مبلغین اور محققین پیدا ہوئے۔ جن کے ذریعے اس ادارہ کا فیض دنیا بھر میں پھیلا۔ حضرت قبلہ ثانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو مزید ترقی دینے کے لیے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک لائبریری قائم کی جس میں طلبا اور مدرسین اور عوام الناس استفادہ کرنے لگے۔ یہاں تفسیر، حدیث، اصول تفسیر، اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ، لغت صرف ونحو، منطق، فلسفہ اور ادب جیسے فنون کی نادر کتب رکھی گئیں۔
ثانی صاحب کے قائم کردہ جامعہ نے نہ صرف اپنے علاقہ اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں علمی نقوش قائم کئے ہیں۔ حضرت صاحب کا لگایا ہوا یہ پودا آج بھی بار آور ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس میں اب بھی سینکڑوں طلبا قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اپنے قلوب کو علم و عرفان کی روشنی سے منورہ کررہے ہیں۔
ثانی صاحب نے جامعہ کے لئے جن اساتذہ کا انتخاب فرمایا ان کی فہرست بہت طویل ہے چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں۔
حضرت العلام مولانا غلام رسول صاحب رضوی شیخ الحدیث فیصل آباد
حضرت العلام مولانا اللہ بخش
حضرت العلام مولانا قاضی عبدالسبحان
حضرت مولانا علامہ محمد علی
حضرت علامہ مولانا عاشق حسین صاحب میاں چنوں
حضرت علامہ مولانا قاری محمد حسین صاحب ہوشیارپوری جلال آباد
حضرت مولانا مختار احمد صاحب
حضرت العلام مولانا نور حسین صاحب شرقپوری
حضرت العلام مولانا غلام مرتضیٰ شاہ صاحب بھکی شریف
ان مقتدر اساتذہ کرام کی علمی آبیاری سے جو نوخیز پودے ثمر بار ہوئے اور پھر ملک کے آسماں کے تارے بن کے چمکے ان کی فہرست دفتروں پر محیط ہے چند نام پیش خدمت ہیں۔
حضرت مولانا حافظ سید عباس علی شاہ صاحب
حضرت مولانا نور محمد صاحب نصرت نوشاہی شرقپور شریف۔
حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ساہیوال
حضرت مولانا محمد فاضل صاحب فیصل آباد
حضرت مولانا محمد امین صاحب جامعہ امینیہ فیصل آباد
حضرت مولانا منشی فضل الدین صاحب آزاد کشمیر پونچھ
حضرت مولانا احسان الحق صاحب رضوی
حضرت مولانا ابو الجمیل محمد اسماعیل صاحب کوٹ رادھا کشن
حضرت مولانا معین الدین صاحب فیصل آباد
حضرت مولانا محمد رفیق صاحب چک 482 ساہیوال
حضرت مولانا پروفیسر عبدالرحمٰن صاحب خانپور
حضرت العلام مولانا عبدالغفور صاحب جامعہ فاروقیہ رضویہ لاھور
حضرت العلام مولانا سید مفتی مزمل حسین شاہ صاحب جامعہ حسینیہ ملتان روڈ لاھور
حضرت العلام مولانا محمد اسحاق صاحب صدیقی جامعہ احیا العلوم بھائی پھیرو
حضرت العلام مولانا محمد اشرف صاحب نقشبندی جامعہ صدیقیہ رضویہ داروغہ والا لاھور
حضرت العلام مولانا طالب حسین شاہ گردیزی جامعہ برکات العلوم مغلپورہ لاھور
حضرت العلام مولانا محمد امین صاحب نقشبندی اشرفی پھالیہ گجرات
قاری محمد اصغر صاحب نقشبندی (مرحوم) امام وخطیب جامعہ مسجد شیرربانی شرقپور شریف
حضرت قبلہ ثانی لا ثانی میاں غلام اللہ صاحب کا وصال 1957 میں ہوا تو جامعہ حضرت میاں صاحب کی نظامت صاحبزادہ میاں غلام احمد صاحب نے سنبھال لی مگر 1972 میں اس جامعہ کو حکومت نے محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا۔
مگر افسوس تہی دامنی والوں نے جامعہ کو کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا اور تردامنی والوں نے اسے اجاڑ کررکھ دیا۔ جن ہاتھوں نے گلستان کو لگایا او سینچا تھا اس کی بربادی ان کی آنکھوں کے سامنے ہونے لگی۔
مگر
قہر درویش بر جان درویش
میاں غلام احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے متبادل جامعہ حضرت ثانی صاحب کے نام سے نیا مدرسہ بنالیا۔ اور پھر جب 1988 عیسوی میں حکومت نے جامعہ کو واگزار کیا تو آپ کی توجہ پھر اس جامعہ کی طرف ہوگئی۔ اور جامعہ حضرت ثانی صاحب کو اس میں ضم کردیا۔
حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمد صاحب کے وصال کے بعد اب جامعہ کا انتظام صاحبزادہ میاں محمد ابوبکر صاحب کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ پوری توجہ کے ساتھ اس تبلیغی کام کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ اور جامعہ اپنی وہ عظمت رفتہ جو تاریخ میں کھو گئی کو پھر حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔
جامعہ حضرت میاں صاحب کے اخراجات پورے کرنے کے لیے حضرت قبلہ ثانی صاحب نے ساڑھے تین کنال رقبے کی زمین رحمان پورہ میں خریدی اور اس میں کوارٹر تعمیر کرکے کرائے پر دے رکھے تھے۔ جب مدرسہ اوقاف نے لے لیا یہ کوارٹر بھی اپنی تحویل میں لے لئے۔ مدرسہ تو 1988 عیسوی میں واگزار ہو گیا مگر کوارٹر ہنوز محکمہ اوقاف کے پاس ہیں۔ جن کے واگزار نہ ہونے کی بنا پر اخراجات پورے کرنے میں دقت ہوتی ہے۔
وزیر اوقاف سے استدعا ہے کہ یہ کوارٹر بھی واگزار کئے جائیں تا کہ تبلیغ و اشاعت کا کام زیادہ بہتر طریقے سے چلایا جاسکے۔