وہ قوم مردہ ہوجاتی ہے اور اپنا تشخص کھو دیتی ہے جس میں آواز اٹھانے اور اپنا حق مانگنے کی خواہش باقی نہ رہے۔ وہ قوم پھر ایک ذہنی غلام اور مردہ قوم بن جاتی ہے جو دوسروں کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ جہاں لوگوں کا حق چھین کر ان کے ارباب اختیار تو مزے اڑاتے ہیں اور وہ قوم اپنی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ غلام قوم کے میعار بھی عجیب ہوتے ہیں یہاں کرپٹ اور سبز باغ دیکھانے والے لوگوں کو اپنا نجات دہندہ کہا جاتا ہے۔ اس ملک کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ آپ کسی پارٹی کو آئینہ دیکھاو تو وہ آپ پر یہ الزام لگا کر بات گول کرجاتے ہیں کہ یہ تو مخالف پارٹی کا ہے۔ ہماری پستی کا یہ حال ہے کہ اس ملک میں تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی طرح یا تو کرپشن میں ملوث ہے یا اگر نہیں بھی ہے تو اسے جب بھی موقع ملے وہ اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ہر کوئی دوسرے پر پارٹی بازی اور مخالف گروپ کا الزام تو لگاتا ہے مگر کوئی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ ہر شخص اپنی جگہ سچا ہے۔ وہ چاہے ن لیگ ہو۔ پی پی پی، پی ٹی آئی یا کوئی اور پارٹی۔ ایک بار اگر اس پارٹی کا سربراہ کہہ دے کہ آج سورج مغرب سے نکلے گا تو آپ دیکھیں گے کہ مجال ہے کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہو کہ اٹھ کر اس کو غلط کہہ سکے اور تو کچھ نہیں مگر خاموش رہ سکے۔ مگر نہیں سب اس بات کے حق میں دلیلیں دینی شروع ہو جائیں گے اور پھر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو جائے گا۔
ہماری قوم کس حد تک مردہ ہو چکی ہے اور ہم اپنی اخلاقی قدریں کسی حد تک کھو چکے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں زیادہ دور نہیں جاتا اپنی تحصیل شرقپور کی مثال ہی لیے لیتے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کل شرقپور میں ایک ایکسڈنٹ ہونے کی وجہ سے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے اور مریض کو وقت پر طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ مگر حیرت ہے کہ ابھی تک کسی صحافی اور کسی سیاست دان نے اتنی اخلاقی جرات نہیں کی کہ اس کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے اپنے حق کا مطالبہ کیا جاسکے۔ ہم اس حد تک ذہنی پستی کا شکار ہو چکے کہ ایک انسان کی موت پر ہم صرف روز کا ایک واقعہ پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کسی کی موت ہمارے لیے صرف ایک اخبار یا ٹی وی چینل کی خبر بن چکی ہے۔ ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے اور ابدی نیند سو چکے ہیں۔
شاعر بھی ہیں پیدا علما بھی، حُکما بھی،
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ!
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ!
’’بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ!‘‘
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ!
صحت اور ہسپتال کی سہولتیں تو عوام کا سب سے بڑا بنیادی حق ہے۔ سڑکیں اور روڈ تو بہت بعد میں آتی ہیں۔ حتی کہ ہمارے اپنے علاقے شرقپور میں لوگ مکمل گیس، پانی، بجلی، صحت، تعلیم، سیکورٹی اور دوسری بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز اپنا غصہ نکالتے اور باتیں کرتے تو نظر آتے ہیں مگر کسی میں یہ اخلاقی جرات نہیں کے اٹھ کر اپنی ہی پارٹی کے خلاف بات کرسکے اور جو غلط ہے اسے غلط کہہ سکے۔ اس کو ذہنی غلامی کہا جاسکے یا کچھ اور۔ ادارے اس حد تک تباہ ہوچکے ہیں کہ جہاں کوئی مسلہ ہو یا ظلم ہو ہر کوئی اٹھ کر سیدھا وزیر اعلیٰ سے فریاد کردیتا ہے کیونکہ کے لوگوں کو معلوم ہے کہ پھر وہ چاہیے پولیس آفیسر ہو، بیورکریسی ہو، سیاست دان ہو یا کوئی محکمہ ہو کسی سے انصاف نہیں ملنا اس کا واحد حل وزیراعلی یا وزیر اعظم ہیں۔
ذرا دیکھ اے ساقئ لالہ فام ---- سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز ---- کہ آتی نہیںفصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات ---- وہ مے جس سے ہے مستئ کائنات
وہ مے جس میںہے سوز و سازِ ازل ---- وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازلٔٔ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممومے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے ---- نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہؤا اس طرحفاش رازِ فرنگ ---- کہ حیرت میںہے شیشہ بازِ فرنگ