روشنائی دروازہ جس کو سبزی منڈی والا دروازہ بھی کہا جاتا ہے، یہ وہ دروازہ ہے جو سب سے پہلے بنایا گیا تھا۔ شروع میں جب شرقپور
کے گرد دیوار کھڑی کی گئی تھی تو یہ مٹی کی بنی ہوئی تھی اور 9 فٹ اونچی تھی۔ اور اس دیوار میں قصبے میں داخل ہونے کیلے صرف
ایک ہی دروازہ رکھا گیا تھا ۔ پنجابی زبان میں دروازے کو بوھا بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے اس دروازے کے سامنے والے کھو کو بوھے
والا کھو بھی کہا جاتا تھا۔ جو اب مینار والی مسجد میں ضعم ہو گیا ہے۔ مینار والی مسجد کو شروع میں قاضیانوالی مسجد بھی کہا جاتا تھا، جو
بعد میں مینار والی مسجد اور پھر مسجد اہلحدیث بھی کہلوائی۔ اس دروازے کے سامنے ایک بوھے والا ڈیرہ (ڈیرہ حافظ محمد جمال) بھی تھا۔
یہ ڈیرہ شرقپور کے بانی حافظ محمد جمال نے شاہ جہاں بادشاہ کے دور میں آباد کیا تھا۔ اس ڈیرے میں حافظ محمد جمال اور دوسرے لوگ جنہوں نے شرقپور کو آباد کیا تھا۔ شام کو بیٹھ کربیٹھک لگایا کرتے تھے اور حقہ پیا کرتےتھے۔
شروع میں اس ڈیرے میں ایک مسافر خانہ بنایا گیا تھا۔ پھر اس میں پختہ کمرے بن گئے۔ حافظ محمد جمال یہاں ڈیرہ لگایا کرتے تھے اور آنے والے مہمانوں کی لسی اور روٹی سے تواضہ کی جاتی تھی۔ حافظ محمد جمال کے بعد ان کے بیٹوں حافظ محمد برہان، حافظ محمد اور حافظ احمد نے اسی نہج پر اس ڈیرے کو چلایا جس پر ان کا باپ چلاتا تھا۔ مگر ان کے بعد ان کے بیٹے بکھر گئے اور اپنے دھندوں میں ایسے الجھے کے ڈیرے پر توجہ نہ دے سکے۔ اور یہ ڈیرہ محض فارغ قسم کے لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ بن گیا۔ حافظ ملک مظفر علی اور ا نکے بھتیجے حافظ برکت علی کی زندگی میں اس ڈیرے میں شام کے بعد کچھ گہما گہمی ہوتی تھی۔ زیادہ باتیں سیاست پر ہوتی تھیں۔ سائیں محمد رمضان ڈیرے کے دھوئیں اور حقے کا زمہ دار ہوتا تھا۔ بعد میں یہ ڈیرہ محض فاتحہ خوانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یا کھبی کبھی کوئی چھوٹا موٹا مذہبی یا سیاسی جلسہ ہو جاتا تھا۔
اگست 13، 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا۔
شروع میں اس دروزے کے باہر پھل اور سبزی منڈی تھی۔ اس لیے اسکو سبزی
منڈی والا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دروازے کو روشنائی دروازہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شروع میں ہندو اور مسلم اپنے تہواروں کے
موقعوں پر اس دروازے میں دیئے جالاتے تھے۔ خاص طور پر مسلم عید میلادالنبی ﷺ کے موقع پر، اور ہندو دیوالی کے موقعے پر۔ ایک وقت
میں یہ دروازہ رات کو عشاٗ کی نماز کے بعد بند کر دیا جاتا تھا۔ اور اس دروازے میں آنے جانے کیلے ایک چھوٹی کھٹرکی رکھی گئی تھی اور
دروازے پر ایک چوکیدار کا پہرہ بھی لگایا گیا تھا۔ لیکن اب یہ دروازہ ہر وقت دن اور رات میں لوگوں کے آنے جانے کیلے کھلا رہتا ہے۔
روشنائی دروازے کے سامنے موجود تاریخی ڈیرے، ڈیرہ حافظ محمد جمال کو گرائے جانے کی تصاویر۔