شرقپور کے تاریخی دروازے

دروازے صرف گھروں کے نہیں بلکہ قصبوں اور شہروں کے بھی رکھے جاتےہیں، جو کہ نہ صرف چوروں اور ڈاکوں سے حفاظت کرتے ہیں بلکہ دوسری تہذیبوں کو بھی داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ شروع میں جب شرقپور کی بنیاد رکھی گئی تھی، گورو گوبند سنگھ کے ماننے والے اس علاقے کے لوگوں پر حملے کرتے تھے۔ اور یہ ضروری ہو گیا تھا کہ شرقپور کے اردگرد ایک دیوار بنائی جائے۔ جب یہ دیوار بنائی گئی تھی تو شروع میں اس میں صرف ایک ہی دروازہ رکھا گیا تھا، جو بعد میں بڑھتے بڑھتے پانچ ہو گئے (پانچویں دروازے کے مطلق تاریخی طور پر کوئی ثبوت نہیں ملتے، صرف چند پرانے لوگ اس کے بارے میں ذکر کرتے ہیں۔)۔ اب صرف 4 ہی دروازے ہیں۔ ایک یا تو تھا ہی نہیں یا پھر ختم ہو گیا ہے۔ شرقپور میں تین بازار ہیں جو کہ ایک ٹی شکل میں ہیں۔ اگر آپ روشنائی یا سبزی منڈی والے دروازے سے داخل ہوں تو نلکے والا چوک میں دو بازار ایک دوسرے کو دائیں اور بائیں سے کراس کرتے ہیں۔ اور ان دونوں بازاروں کے آخر میں ایک ایک دروازہ ہے۔ ان تین دروازوں کے علاوہ چوتھا دروازہ ہرنی شاہ گلی کے آخر میں ہے۔ اس طرح یہ چار دروازے بن جاتے ہیں۔ ان چاروں دروازوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔


روشنائی دروازہ جس کو سبزی منڈی والا دروازہ بھی کہا جاتا ہے، یہ وہ دروازہ ہے جو سب سے پہلے بنایا گیا تھا۔ شروع میں جب شرقپور کے گرد دیوار کھڑی کی گئی تھی تو یہ مٹی کی بنی ہوئی تھی اور 9 فٹ اونچی تھی۔ اور اس دیوار میں قصبے میں داخل ہونے کیلے صرف ایک ہی دروازہ رکھا گیا تھا ۔ پنجابی زبان میں دروازے کو بوھا بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے اس دروازے کے سامنے والے کھو کو بوھے والا کھو بھی کہا جاتا تھا۔ جو اب مینار والی مسجد میں ضعم ہو گیا ہے۔ مینار والی مسجد کو شروع میں قاضیانوالی مسجد بھی کہا جاتا تھا، جو بعد میں مینار والی مسجد اور پھر مسجد اہلحدیث بھی کہلوائی۔ اس دروازے کے سامنے ایک بوھے والا ڈیرہ (ڈیرہ حافظ محمد جمال) بھی تھا۔ یہ ڈیرہ شرقپور کے بانی حافظ محمد جمال نے شاہ جہاں بادشاہ کے دور میں آباد کیا تھا۔ اس ڈیرے میں حافظ محمد جمال اور دوسرے لوگ جنہوں نے شرقپور کو آباد کیا تھا۔ شام کو بیٹھ کربیٹھک لگایا کرتے تھے اور حقہ پیا کرتےتھے۔

شروع میں اس ڈیرے میں ایک مسافر خانہ بنایا گیا تھا۔ پھر اس میں پختہ کمرے بن گئے۔ حافظ محمد جمال یہاں ڈیرہ لگایا کرتے تھے اور آنے والے مہمانوں کی لسی اور روٹی سے تواضہ کی جاتی تھی۔ حافظ محمد جمال کے بعد ان کے بیٹوں حافظ محمد برہان، حافظ محمد اور حافظ احمد نے اسی نہج پر اس ڈیرے کو چلایا جس پر ان کا باپ چلاتا تھا۔ مگر ان کے بعد ان کے بیٹے بکھر گئے اور اپنے دھندوں میں ایسے الجھے کے ڈیرے پر توجہ نہ دے سکے۔ اور یہ ڈیرہ محض فارغ قسم کے لوگوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ بن گیا۔ حافظ ملک مظفر علی اور ا نکے بھتیجے حافظ برکت علی کی زندگی میں اس ڈیرے میں شام کے بعد کچھ گہما گہمی ہوتی تھی۔ زیادہ باتیں سیاست پر ہوتی تھیں۔ سائیں محمد رمضان ڈیرے کے دھوئیں اور حقے کا زمہ دار ہوتا تھا۔ بعد میں یہ ڈیرہ محض فاتحہ خوانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یا کھبی کبھی کوئی چھوٹا موٹا مذہبی یا سیاسی جلسہ ہو جاتا تھا۔ اگست 13، 2015 کو یہ ڈیرہ ڈی سی او شیخوپورہ کرن خورشید کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر شرقپور نورش صبا کی موجودگی میی مسمار کر دیا گیا۔ شروع میں اس دروزے کے باہر پھل اور سبزی منڈی تھی۔ اس لیے اسکو سبزی منڈی والا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دروازے کو روشنائی دروازہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شروع میں ہندو اور مسلم اپنے تہواروں کے موقعوں پر اس دروازے میں دیئے جالاتے تھے۔ خاص طور پر مسلم عید میلادالنبی ﷺ کے موقع پر، اور ہندو دیوالی کے موقعے پر۔ ایک وقت میں یہ دروازہ رات کو عشاٗ کی نماز کے بعد بند کر دیا جاتا تھا۔ اور اس دروازے میں آنے جانے کیلے ایک چھوٹی کھٹرکی رکھی گئی تھی اور دروازے پر ایک چوکیدار کا پہرہ بھی لگایا گیا تھا۔ لیکن اب یہ دروازہ ہر وقت دن اور رات میں لوگوں کے آنے جانے کیلے کھلا رہتا ہے۔
روشنائی دروازے کے سامنے موجود تاریخی ڈیرے، ڈیرہ حافظ محمد جمال کو گرائے جانے کی تصاویر۔

ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال
ڈیرہ حافٖظ محمد جمال

شرقپور کی فصیل مشرقی جانب بنائے جانے لگی تو حضرت بابا شاہ محمد مراد ؒ نے حافظ محمد جمال سے فرمایا کہ یہاں ایک چھوٹی سی کھڑکی رکھی جائے تا کہ ادھرسے ہمارا آنا جانا رہے۔ چنانچہ ان کے کہنے پر کھڑکی رکھ دی گئی۔ جسے لوگ کچی دروازہ کہتے تھے۔ جب محلہ ہرنی شاہ کی بھر پور آبادی ہو گئ تو اس دروازی کی جگہ بڑا دروزاہ بنا دیا گیا۔ لیکن پھر بھی اس دروازے کو کچی دروزاہ ہی بولا جاتا رہا۔ لوگوں کا اس دروازے کے بارے میں عقیدہ تھا کہ اگر کسی بیمار بچے کو اس دروازے میں گزار لیا جاتا تو وہ ٹھیک ہو جاتا تھا۔ چونکہ اس دروازے کی سیدھ میں لاھور شہر پڑتا ہےاس لیے اس کو لاہوری دروازہ کا نام بھی دیا گیا۔ مگر یہ نام نہ پنپ سکا۔ اب اس دروازے کا نام دروازہ حضرت میاں ہرنی شاہ رکھا گیا ہے۔ اس دروازے میں سے کئی بزرگوں کا گزر رہا ہے۔ حٖضرت میاں شاہ محمد مرادؒ، حضرت میاں ہرنی شاہؒ، حضرت میاں روشن دینؒ، حضرت میاں غلام مصطفٰے اور حضرت میاں نیک محمد نوشاہیؒ کی رہائشیں اسی محلہ میں تھیں۔ ان کا گزر شام وسحر اس دروازہ سے ہوتا تھا۔ یہ ان بزرگوں کا تصرف لگتا ہے کہ اس محلے میں داخل ہوں تو دلوں کو سکون ملتا ہے۔

یہ دروازہ ملک نین یعنی ملک حسن علی مرحوم کے اباو اجداد کے آنے پر بنایا گیا۔ چونکہ ان کی زمینیں اس طرف زیادہ تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے رہائشی مکان بھی اس طرف بنائے تھے۔ روشنائی دروازے میں سے گزر کر آنا انہیں دور کا فاصلہ پڑتا تھا۔ یہ دروازہ بھی کچی فصیل میں تھا۔ مگر یہاں نہیں تھا جہاں اب ہے بلکہ محلہ الیاس اور میاں عبدالطیف کھراونا والی گلیوں کے قریب تھا۔ یہ دروازہ کوئی اتنا اونچا اور بڑا بھی نہ تھا۔ جتنا کہ روشنائی دروازہ۔ تاہم گھروں کے دروازوں کی نسبت بڑا تھا۔ یہ بات عام مشہور ہے کہ جب میاں محمد اسماعیل کابلی کی شادی ہوئی تو ہاتھی پر سواری کر کے بارات لے گیا تھا۔ اس کی بارات

فیض پور کلاں میں گئی تھی۔ ہاتھی اس دروازے میں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ لہذا اس دروازے کو گرا کر دولہا میاں کا ہاتھی گزارا گیا۔ ازاں بعد موجودہ جگہ پر یہ دروازہ بنایا گیا۔ دروازے کی تعمیر ملک محمد الیاس، حکیم شیر علی اور حافظ احمد یار کے اہتمام سے ہوئی۔ اس دروازے کے لئے اینٹیں میاں محمد اسماعیل کابلی نے اپنے بھٹے سے مفت فراہم کی تھیں۔ یہ دروازہ محراب نما ہے۔ اندر کی جانب کوئی مسقف جگہ نہیں ہے اس کے پٹ روشنائی دروازے کی طرح زیادہ مضبوط نہ تھے۔ پاکستان بننے کے بعد تک یہ پٹ موجود تھے مگر اب نہیں ہیں۔ دروازہ شہر کی مشرقی جانب بنا ہوا ہے۔ شہر سے آنے والا بازار ڈھلوان پر ہے۔ جس کے باعث دروازے کی جانب برھتے لوگ بھاگتے ہوئے لگتے ہیں۔ جب سورج نکل رہا ہوتا ہے تو اس کی کرنیں ان باہر نکلنے والے لوگوں کے ماتھے کو چوم لیتی ہیں۔ اس دروازے کے باہر محلہ حکیم گڑھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگ اسے حکیم گڑھی والا دروازہ بھی کہتے ہیں۔ اس دروازے کے سامنے ملکانہ ڈیرہ واقع ہے۔ جو کہ سرکلر روڑ کے دائیں پہلو میں ہے۔ اس دروازے کو رہتی دنیا تک یہ اعزاز ضرور حاصل رہے گا کہ یہاں کے ولی کامل اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ جن کی رہائش گاہ قریب ہی تھی، اس دروازے میں سے صبح شام گزرا کرتے تھے۔ حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ میاں غلام اللہ بھی اسی دروازے میں سے گزرا کرتے تھے۔ اور آپ کے مریدین بھی اسی دروازے سے گزر کر آپ سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ ان ملنے والوں میں نہ جانے کون کون سے عظیم لوگ شامل تھے۔ مولانا اصغر روحی، حکیم نیرواسطی، ڈاکٹر محمد یوسف، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ، سر محمد شفیع، مولانا سید انور شاہ کاشمیری کا گزر بھی اس دروازے سے ہوا تھا۔

یہ دروازہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ اس وقت بنا جب ملکانہ دروازہ بن چکا تھا۔ اسی لیے اسے نواں دروازہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس دروازے کے قریب مسجد گجرانوالی موجود تھی جو گجروں نے بنائی تھی اس کے علاوہ ایک مدرسہ بھی ان کی نگرانی چل رہا تھا۔ لہذا اس مناسبت سے اس دروازے کو گجرانوالہ دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس دروازے کے آس پاس ریوڑی خاندانوں کے گھر بھی آباد ہیں ۔ اس لیے کوشش کی گئی کہ اسے دروازہ ریوڑیاں کہا جائے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کچھ لوگ اسے گوجرانوالہ کہتے ہیں اور کچھ نواں دروازہ۔ تاہم ان دنوں نواں دروازہ زیادہ مشہور ہے۔ یہ دروازہ اس طرز کا بنا ہوا ہے جس طرز کا پرانی سبزی منڈی والا دروازہ یا روشنائی دروازہ ہے۔ حاٖفظ بابا غلام یسین نے اس دروازے کے ملحق باہر جانب اپنا مکان بنایا۔

مکان بازار کے دونوں جانب دائیں بائیں تھا۔ لہذا بازار مسقف بن گیا ہے بارش ہوتی ہے تو بھیگ جانے والے اس کے نیچے پنا لیتے ہیں۔ حافظ بابا غلام یسینٰ، ملک منور علی، ملک سرفراز احمد (سابقہ ایم پی اے اور ایم این اے) اور ملک افتخار احمد (سابقہ چیرمین بلدیہ شرقپور شریف) کے والد ماجد ہیں۔ اب یہ مکان ملک افتخار احمد کے حصے میں آگیا ہے۔ انہوں نے اس کی تعمیر نو کی ہے اور نیچے شاندار مارکیٹ بن گئی ہے۔ جہاں مختلف کاروبار کی دوکانیں چل رہی ہیں۔ ملک افتخار احمد جب بلدیہ شرقپور کے چیرمین تھے انہوں نے اس دروازے کی جانب خاص توجہ فرمائی اور اس کی تعمیر نو کی اور چینی کی ٹائلیں لگوا کر اس کے حسن کو دوبالا کیا۔ اور اس کے دائیں بائیں دوکانیں بنوائیں جن کا کرایہ بلدیہ شرقپور کو جمع ہوتا ہے۔ اس کی تعمیر نو پر 7 نومبر 1992 میں رسم افتتاح ادا کی گئی۔ اس کے علاوہ اس دروازے کے باہر کبھی محصول چونگی ہوا کرتی تھی۔ اس جگہ پر بھی دوکانیں بنوادی گئیں ہیں۔ جہاں سے ہر ماہ کمیٹی کو کرایہ مل رہا ہے۔ اس دروازے کے باہر حافظ غلام یسینٰ کا ڈیرہ بھی تھا۔ جسے ملک سرفراز احمد صاحب نے جدید طرز میں بنایا۔ جہاں اب نیشنل بینک آف پاکستان بنا ہوا ہے۔ اور ڈیرہ ہسپتال روڑ پر منتقل ہو گیا ہے۔ اس دروازے کے باہر سرکلر روڑ ہے جو پرانے کاغذوں میں مانگٹانوالہ روڑ تھی۔ ازاں بعد اسے بازار حافظاں بھی کہا گیا۔ مگر یہ دونوں نام لوگوں کی زبان پر پنپ نہ پائے۔ البتہ دربار روڑ کا نام زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس سڑک کے آخر میں ولی کامل اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کا دربار عالیہ ہے۔