علمی ذوق رکھنے والے ہمیشہ اشاعت علم کی راہوں پر کھڑے ہو کر سوچا کرتے ہیں۔ یہ سوچ فخر المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ حضرت صاحبزاہ میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری 23 فروری 1933 عیسوی بمطابق 27 شوال 1351 ہجری بروز جمعرات صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔ آپ حضرت میاں غلام اللہ المعروف ثانی لا ثانی برادر حقیقی حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے فرزند تھے۔ آپ کے ذوق کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کی بھر پور جوانی کا عالم تھا عمر صرف پچیس چھبیس سال ہو گی۔ مادیت نے کفروالحاد کی طلمتوں کا موحول پیدا کردیا ہے۔ کسی کو کسی کی بات سننے کی فرصت نہیں ہے۔ وہاں یہ نوجوان سوچتا ہے کہ ایسے موحول میں دینی و تبلیغی کام کی اشد ضرورت ہے۔
چنانچہ حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری اور اعلیٰ حضرت شیرربانی میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کی یاد میں 1960 میں ایک علمی و دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی۔ اس درس گاہ کا نام جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب رکھا گیا۔ بازار میں ایک بیٹھک کرائے پر لی۔ خود ہی مہتم اور خود ہی مدرس بن کے تدریس کا کام شروع کردیا۔ پھر بڑی جلدی طلبا کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اور بیٹھک کی جگہ تنگ ہوگئی۔ لہذا گورے والا کھوہ کے قریب ایک کشادہ مکان کی پیشانی پر دارالمبلغین کا بورڈ آویزاں کردیا گیا۔ اب اساتذہ بھی رکھے گئے اور علوم و فنون کی تعداد بھی بڑھادی گئی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دربار روڈ پر جامعہ دارالمبلغین کی ایک شاندار دین منزلہ عمارت اپنے ذاتی اخراجات سے ایستادہ کردی۔
آپ کو اشاعت علم سے خاصا لگاو تھا۔ اور تصنیف و تالیف کی لگن اور شوق بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسائل نماز، عربی گرائمر، تذکرہ امام ابو حنیفہ اور ارشادات مجدد الف ثانی اور مسلک مجدد الف ثانی پر کتب لکھ کر شائع کیں۔ آپ نے رسالہ ماہنامہ نور اسلام شیرربانی نمبر اور مجدد الف ثانی تین جلدوں میں شائع کئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ سب خصوصی نمبر مفت تقسیم کردیے گئے۔ آپ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو متعارف کرانے کے لیے جو کام کیا ہے وہ شائد کوئی دوسرا نہ کرسکے۔ آپ نے یوم مجدد پاک منانے کی ایک تحریک شروع کی جو بفضلہ تعالیٰ بڑی موثر ثابت ہوئی۔ اب تو ملک کے کونے کونے میں مجدد پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دن منائے جاتے ہیں۔ انجمنیں بنی ہوئی ہیں جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ آپ بھی ایسے جلسوں کی صدرات کرتے رہے ہیں۔ یوم مجدد منانے کی طرح یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے اور منانے کی اپیل کرتے۔ اس طرح یوم صدیق اکبر بھی ایک تحریک کا رنگ اختیار کرگیا۔
اس دارالمبلغین میں قرآن مجید کی ناظرہ وحفظ تعلیم کے علاوہ علوم اسلامیہ مثلا تفسیر، حدیث، فقہ کے ساتھ ساتھ فنی علوم مثلا صرف ونحو، منطق، کلام اور دیگر فنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور مدرسین و مبلغین تیار کیے جاتے ہیں۔ بفضلہ تعالیٰ اس دینی اور روحانی تربیت سے مستفیض ہو کر بکثرت علما پاکستان کے طول و عرض میں دین حق کی اشاعت و ترویج اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
طلبا کے مصارف خوراک، رہائش، صفائی، روشنی، مصارف ادویہ نیز نصابی کتب و کتب برائے مطالعہ کے اخراجات، نادار اور غریب طلبا کی کپڑے اور روز مرہ زندگی کی ضروریات کی اشیا دارالمبلغین کی طرف سے ادا کی جاتی ہیں۔
دارالمبلغین تبلیغ واشاعت دین کے فریضہ کے نہایت حسن وخوبی سے انجام دے رہا ہے۔ اور مشکل ترین حالات میں بھی پہلو تہی نہیں کرتا ہے۔
مدرسہ کی بلڈنگ صحت کے اصولوں کے مطابق بنائی گئی ہے۔ قدرتی اور مصنوعی روشنی وافر ہے پنکھے ہروقت ایک خوشگوار ماحول بنائے رکھتے ہیں۔ نہانے، وضو کرنے اور کپڑے دھونے کے لئے پانی ہروقت موجود رہتا ہے۔ 100 سے زیادہ طلبا اقامتی ہیں جو فیض شیرربانی سے فیضاب ہورہے ہیں۔ حضرت میاں جمیل احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ جب تک حیات تھے خود اکثر مدرسہ میں موجود ہوتے تھے وہ تدریس کا جائزہ بھی لیتے تھے اور ہر چیز کی خود نگرانی کرتے تھے۔ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کی بعد مدرسہ کے انتظامات ان کے بیٹے ولی کامل حضرت میاں خلیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ نے سنبھال لیے اور ان کی وفات کے بعد ان کے مدرسہ کے انتظامات صاحبزادے سجادہ نشین آستانہ عالیہ صاحبزادہ میاں ولید احمد شرقپوری نے سنبھال رکھے ہیں۔
دارالمبلغین میں تعلیم و تدریس کی ذمہ داریاں جن اساتذہ کے سپرد رہیں۔ ان میں
حضرت مولانہ محمد منصب علی صاحب مرحوم
حضرت مولانا اکبر علی شرقپوری مرحوم
قاری سید محمد صدیق صاحب
مولانا محمد اسلم ساقی صاحب
مولانا قاری فریاد حسین صاحب
مولانا قاری غلام شبیر صاحب
قاری محمد عالم صاحب۔
بذریعہ معلومات
مطالعہ نقوش شرقپور مصنف ماسٹر انور قمر صاحب مرحوم