لاھور سے جڑانوالہ جاتے ہوئے شرقپور لاری اڈا سٹاپ پر آپ کو درختوں میں گری ہوئی ایک بہت لمبی دیوار نظر آئے گی جو کہ گورنمنٹ ہارون شہید پائلٹ سیکنڈری سکول شرقپور کی ہے ۔ یہ سکول ایک بہت بڑے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ سکول شروع میں ایسا نہ تھا نہ ہی اس کی موجودہ شکل اور عمارتیں۔ اورنہ پورے ضلع میں اس کی کوالٹی ایجوکیشن میں جو ایک نام ہے وہ نام ایک دن میں بنا ہے۔ یہ بہت سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس سکول کی تاریخ تقریبا 150 سالوں پر محیط ہے۔
کوئی 1861 کی بات ہے وزارت تعلیم کے زیر نگرانی شرقپور میں ایک پرائمری سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس وقت نہ تو کوئی عمارت تھی اور نہ کوئی فرنیچر۔ ایک درخت کی چھاوں میں صرف ایک چارپائی پر بیٹھ کر منشی بوٹا سنگھ نے تقریبا 50 بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ اس وقت لوگوں کا تعلیم کی طرف کوئی زیادہ رحجان نہیں تھا۔ لیکن منشی بوٹا سنگھ اپنے کام کو پوری لگن کے ساتھ کرتا رہا ان کی آواز میں اتنا اثر تھا کہ بغیر کسی چھڑی کے طالب علم لائنوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ منشی بوٹا سنگھ خورد پور سے پیدل آیا کرتا تھا۔ اس کی سخت محنت سے طالب علموں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوگئی اور 1868 تک یہ تعداد تقریبا 100 تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد سکول کے نئے استاد اور ہیڈ ماسٹر مولوی نور الدین نے سکول کو جوائن کیا۔ تقریبا 29 سال تک سکول بغیر کسی چھت کے چلتا رہا۔ طالب علم یا تو کسی درخت یا کھلے آسمان میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔
شرقپور کے سکول میں طلبا کی تعداد بڑھانے میں حکیم شیر علی صاحب نے ایک ممبر ترقی تعلیم طلبائے مدرسہ شرقپور کی حثیت سے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اور ان کی اس کاوشوں کے نتیجے میں 3 جنوری 1871 تحصیلدار شرقپور کی جانب سے اور 7 جنوری 1875، 29 اکتوبر 1880، 31 مارچ 1882 اور 20 نومبر 1884 کو انسپکڑ آف سکلولز کی جانب سے بحکم ڈپٹی کمشنر ضلع لاھور تعریفی سرٹیفیکٹ دیے گئے تھے۔ ایک سرٹفیکیٹ 11 دسمبر 1886 کو قائمقام کمشنر و سپرنٹڈنٹ لاھور کرنل ہنری کاکس کی جانب سے دیا گیا جس میں ان کی جانب سے سکول کے طلبا کی تعداد بڑھانے کی تعریف کی گئی تھی۔ ان تعریفی اسناد کے علاوہ 1882 میں سرٹیفیکٹ کے علاوہ ان کو دس روپیہ چودہ آنہ انعام بھی دیا گیا تھا۔
پہلی مرتبہ 1890 میں سکول کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کی بنیاد اس جگہ رکھی گئی جہاں پرانا ہسپتال تھا۔ اس وقت بائیں جانب جو کمرے ہسپتال کی وارڈ کے لیے استعمال ہوتے تھے وہاں کلاسیں لگنا شروع ہو گئیں۔ اس سکول میں اردگرد کے نواحی گاوں سے بھی طالب علم پڑھنے کے لیے آتے تھے کیونکہ کہ اس علاقے میں اور کوئی سکول نہ تھا۔ 1892 میں دوسرے علاقوں سے آنے والے طالب علموں کے لیے سکول کا بورڈنگ ہاوس بنایا گیا۔ پھر اس جگہ بعد میں ورلڈ بنک کے تعاون سے پرائمری سکول کی عمارت تعمیر کردی گئی۔ یہ سکول تحصیل روڑ پر آشیانہ سعادات کے ساتھ تھا۔ 1940میں اس سکول کو مڈل سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت سکول کے پہلے پرنسپل مولوی محمد دین ثاقب تھے۔ جو کہ ایک بہت اچھے لکھاری، شاعر اور خطاط تھے۔ جب ان کا تبادلہ ہو گیا تو پھر ان کی جگہ جناب چراغ علی باری صاحب نے سکول کو جوائن کیا جو کہ ایک بہت بڑے مفکر اور معلم تھے انہوں نے اس سکول کی بہت خدمت کی۔ 1926 میں اس مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر پیر ولائت علی صاحب تھے۔ انہوں نے سکول کا معیار بلند کرنے میں بہت محنت کی۔ اور ان کی محنت کی وجہ سے یہ مڈل سکول 1926 میں ہائی سکول کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اور پیر ولائت علی اس ہائی سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر بنے۔ ان کا تعلق بھیرا ضلع خوشاب سے تھا۔ اس کے بعد سکول کے لیے 16 ایکٹر زمین حاصل کی گئی اور سکول کی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی۔ اور بہت جلد یہ عمارت بن گی۔ مڈل سکول والی عمارت کو وزارت صحت نے ایک سول ڈسپنسری میں تبدیل کردیا پھر 1933 میں اسی جگہ ایک ہسپتال کی عمارت تعمیر کردی گئی۔ 1943میں چوہدری عبدالواحد کو اس ہائی سکول کا نیا ہیڈ ماسٹر نامزد کیا گیا۔ جو ایک بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ سکول میں بہت سے ہیڈ ماسٹر آئے اور گئے جنہوں نے اس سکول کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ 1954 میں قاضی محمد ظریف صاحب سکول کے ہیڈ ماسٹر نامزد ہوئے۔ ان کا دورسکول کے لیے ایک انقلابی دور تھا۔ انہوں نے سکول کو 6 حصوں میں تقسیم کردیا ہر حصے میں چھٹی کلاس سے دسویں کلاس تک طالب علم تھے اور ہر طالب علم کے پاس ایک گریڈ کارڈ تھا۔ اور جب بھی کوئی طالب علم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تو استاد اس کے گریڈ کارڈ پر اس کو نمبر دیتے۔ اور جب کوئی طالب علم 20 نمبر حاصل کرلیتا تو پھر اس کو ایک میرٹ سلپ دی جاتی اور 5 میرٹ سلپ کو اکھٹا کرنے کے بعد طالب علم کو ایک میرٹ سرٹیفیکٹ دیا جاتا اور ان میرٹ سرٹیفیکٹ حاصل کرنے والے طالب علموں کو انعامات سے بھی نوازہ جاتا۔ سکول کے ان 6 سیکشن میں سے ہر ایک کو ایک ہاوس کا نام دیا گیا تھا۔ اور ہر ہاوس اپنا خود کا ایک میگزین پبلش کرتا تھا۔ اس میگزین میں تمام مضامین طالب علم لکھتے تھے۔ ان چھ ہاوس کے نام درج ذیل تھے۔
راوی ہاوس
قائد ہاوس
شرقپور ہاوس
مجاہد ہاوس
طارق ہاوس
خالد ہاوس
اس سسٹم کی وجہ سے ہر طالب علم اچھا کام کرنے کے لیے ایک مقابلے کے ماحول میں آگیا تھا۔ اور اس کی وجہ سے طالب علم پڑھائی کے لیے زیادہ محنت کرنے لگے تھے۔ قاضی محمد ظریف صاحب نے ہی سکول میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ سکول کی لائبریری کو بھی وسعت دی گئی۔ اس کے علاوہ سکول میں ایک ٹیوب ویل کی تعمیر کے لیے ایک سکیم بھی بنائی گی۔ انہیں کے دور میں سکول میں ایک فٹ بال کی گراونڈ بنائی گی۔ سکول میں موجود اس مسجد کے گرد آج آپ کو جو درخت نظر آتے ہیں وہ ان ہی کے ہاتھ سے لگائے گئے تھے۔ قاضی محمد ظریف صاحب کے بعد سکول میں بہت سے ہیڈ ماسٹر آئے اور انہوں نے ان کے بنائے ہوئے سسٹم کو جاری رکھا۔ 1958میں خواجہ منیر حسین جیسی شخصیت نے سکول کو جوائن کیا۔ انہوں نے سکول کے منظر کوتبدیل کردیا۔ ان کے دور میں سکول کی عمارتیں بہت تیزی سے تعمیر ہونا شروع ہوئیں۔ ان کا دور ایک سنہری دور تھا۔ ان کی علمی مہارت، ہر شعبے میں بصیرت اور انتظامی قابلیت کسی سے مخفی نہ تھی۔ انہوں نے سکول کی ترقی کے لیے اپنی ذاتی محنت اور دلچسپی کے ساتھ ایک عظیم کردار ادا کیا۔ 1963میں سکول کو پائلٹ سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ سکول میں طلبا کی تعداد روز بروز بڑھنی شروع ہوگئی۔ سکول کی اچھی شہرت کو پورے پنجاب میں جانا جانے لگا۔ اس سکول کی اس شہرت کی وجہ سے وزارت تعلیم اور گورنمنٹ کے بہت سے آفیسران اور آفیشل حضرات نے سکول کے دورے کیے۔ ان میں سے چند عظیم شخصیات کے نام درج ذیل تھے۔
عبدالحمید دشتی صاحب
ڈاکٹر خان صاحب
صوفی عبدالحمید صاحب
فیروز خان صاحب
کرنل عابد حسین صاحب
یہ سکول پورے پاکستان میں ایک ملٹی پرپز سکول تھا۔ اس سکول میں تعلیمی بورڈ کی ثانوی حثیت کے تحت سب سے زیادہ مضامین کو پڑھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ طالب علموں کے لیے مضامین کے انتخاب کے لیے ایک وسیع گنجائش تھی۔ طالب علم اپنی مرضی سے مضامین کا انتخاب کرتے تھے اور اس کے علاوہ ان کی راہنمائی کے لیے اساتذہ بھی موجود تھے۔ ہرطالب علم کے خاندان کے پس منظر، صحت، تعلیمی اور اخلاقی ریکارڈ کو سکول میں رکھا گیا تھا۔ سکول میں موجود ان مضامین کے تعلیمی گروپ درج ذیل تھے۔
انسانیت گروپ
سائنس گروپ
زرعی گروپ
صنعتی گروپ
کامرس گروپ
سکول کا پورہ رقبہ تقریبا 3300 فٹ ہے۔ اس سکول کی حفاظت کے لیےاس کے اردگرد ایک دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ یہ دیوار شروع میں طالب علموں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی تھی۔ اور اس پر سکول نے کوئی رقم بھی خرچ نہ کی تھی۔ اس کے بعد ایک لمبے عرصے کے بعد محمد فاروق صاحب نے سکول کے گرد ایک سیمنٹ کی دیوار بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ وزارت تعلیم کو خطوط لکھے گئے۔ لیکن ہر مرتبہ ایک ہی جواب آتا کہ لڑکوں کے سکول کے گرد دیوار نہیں تعمیر کی جاسکتی۔ پھر آخرکا ایک ڈائریکٹر نے دیوار بنانے کے لیے تخمینہ لگوایا جو کہ 45 لاکھ تھا۔ اس دور میں فاروق صاحب کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات ہو گئی۔ جب اکرم حسین کھوکھرصاحب سکول کے ہیڈ ماسٹر بنے انہوں نے اس دیوار کو بغیر کسی مدد کے شروع کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز شروع کردیا۔ اس کے لیے والدین اور اساتذہ کی ایک تنظیم بنائی گئی۔ اساتذہ نے اپنی ایک دن کی تنخواہ دو مرتبہ اس فنڈ میں جمع کروائی اور طلبا نے بھی اپنے والدین سے لیے کر رقم اس فنڈ میں جمع کروائی۔ اور یہ دیوار جس کا تخمینہ محکمہ تعلیم نے 45 لاکھ روپے لگوایا تھا۔ صرف 6 لاکھ روپے میں تعمیرہو گئی۔
اکرم حسین کھوکھرصاحب، حاجی اقبال احمد راول، ذوالفقار علی مونگہ، محمد انور قمر، محمد افضال سلیمی اور حاجی توقیر احمد گوندل صاحبان نے اس دیوار کو تعمیر کروانے کے لیے بھاگ دوڑکی اور فنڈ اکھٹے کیے۔ اس سکول کا نتیجہ ہمیشہ سے ہی شاندار رہا ہے۔ اس سکول نے بہت سی عظیم ہستیوں کوپیدا کیا ہے جن کی ادبی سربلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگریکی محدود فضاوں سے نکل کر لامحدود دنیائے علم وادب کا حصہ ہی نہیں بلکہ علم وادب کا افتخار اور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔ جن میں سے بعض بہت بڑے بڑے عہدوں پر بھی تعینات رہے ہیں۔ ان شخصیات میں سے چند کی فہرست درج ذیل ہے۔
ملک ڈاکٹر محمود علی آف شرقپور ایم بی بی ایس پنجاب، ایم آر سی پی لندن ایڈن برای گلاسگو
کمانڈر یوسف ظفرالاسلام آف شرقپور پاکستان نیوی - بہترین مڈشپ مین ایوارڈ ہولڈر تمغہ امتیاز ملٹری
ڈاکٹر پروفیسر ہارون رفیع الاسلام آف شرقپور ایم بی بی ایس- ایف ار سی ایس یو کے- جنرل سرجن میو پسپتال و پروفیسر آف سرجری کنگ ایڈورد میڈیکل یونیورسٹی لاہور
صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری سابقہ ایم این اے اور ضلعی ںاظم شیخوپورہ
ذوالفقار علی ملک آف شرقپور ایم اے، پی ایچ ڈی لندن
نظیر احمد راول آف شرقپور بی ایس سی انجینرنگ امریکہ
ملک نور احمد آف شرقپور بی ایس سی انجینئرنگ، ڈیزائن آفیسر
ڈاکٹر ریاض احمد آف شرقپور ایم بی بی ایس میڈیکل آفیسر سعودیہ
حسن علی عباس آف شرقپور ایم اے عربی، انگلش، پرنسپل کیڈٹ کالج حسن ابدال
امان اللہ شیخ آف شرقپور ایم اے سائیکولوجی، پروفیسر اسلامیہ کالج لاھور
ملک غضنفر علی آف شرقپور ایم اے، پروفیسر گورنمنٹ کالج بہاولپور
ملک مقبول احمد آف شرقپور ایم اے، گارڈن کالج روالپنڈی
شیخ محمد افضل آف شرقپور ایم ایس سی، پروفیسر کمیسٹری پنجاب یونیورسٹی لاھور
ملک بشیر مظفر آف شرقپور لاآفیسر نیشنل بنک آف پاکستان
نظیر احمد آف شرقپور ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کارپوریشن
ملک سرفراز احمد آف شرقپور کمشنر
سلطان احمد آف شرقپور ایم اے فزکس، پی ایچ ڈی، پروفیسر تعلیم اسلام کالج
گوہر نوشاہی آف شرقپور پروفیسر اورینٹل کالج لاھور
الطاف حسین آف شرقپور ڈویژنل فارسٹ آفیسر
منظور الہی گوندل آف شرقپور بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ
شیخ نظام الدین آف شرقپور بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ
شیخ محمد حسن آف شرقپور بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ
ملک جمیل احمد آف شرقپور بی اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ
علامہ نصرت نوشاہی صاحب آف شرقپور ایم اے گولڈ میڈلسٹ
محمد انور قمر آف شرقپور بی اے فاضل اردو، مصنف، شاعر اور مفکر
مختار احمد آف شرقپور آرمی آفیسر
ڈاکٹر مدثر آف شرقپور ایم بی بی ایس
اختر علی مونگہ آف شرقپور ڈی سی گوجرانوالہ
ملک شہادت علی آف شرقپور چیف مینجر سٹیٹ بنک آف پاکستان
ڈاکٹر عبدالمجید آف شرقپور ایم اے لائبریری سائنس، ایم اے انگلش،ایل ایل بی
محمد اشرف بھٹی آف شرقپور ایس ڈی او
مقصود احمد آف شرقپور پبلشر
محمود احمد شاہ آف قرشیانوالہ کرنل
سجاد احمد شاہ آف قرشیانوالہ کرنل
افتخار احمد شاہ آف قرشیانوالہ وکیل
عبدالماجد آف شرقپور الماجد ٹریڈر لاھور
ملک نعیم انور آف شرقپور اکاوئنٹ آفیسر ٹیلیفون
ملک محمد اشرف آف شرقپور ایم اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ
عبدالقادر آف شرقپور ریٹائرڈ ڈپٹی سیکرٹری، یہ وزارت صحت، وزارت پانی وبجلی، پورٹس اینڈ شپنگ کراچی، لا اینڈ جسٹس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد میں کام کرچکےہیں۔
ناصر علی ولد وقار امبالوی آف سہجووال ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل
عارف وقار امبالوی سینئر ایڈیٹر بی بی سی ورلڈ سروس
یہ لسٹ بہت لمبی ہے میں صرف اتنے ہی نام شامل کر سکا ہوں جن تک میری رسائی ہوئی اور جو نام میں نہیں لکھ سکا ان حضرات سے میں معذرت خواہ ہوں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا نام اس لسٹ میں ہونا چاہیے تو برائے مہربانی آپ مجھے اپنے بارے میں تفصیل ای میل میں بھیج دیں۔ میں اس بلاگ کو اپ ڈیٹ کردوں گا۔
دسمبر18، 2015 کو شرقپور کے اس گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول نا نام تبدیل کرکے آرمی پبلک سکول پشاور سانحہ میں شہید ہونے والے ایک طالب علم کے نام پر گورنمنٹ ہارون شہید پائلٹ سیکنڈری سکول رکھ دیا گیا۔
سکول میں جو جو ہیڈ ماسٹرز تعینات رہے ان کی فہرست درج ذیل ہے۔
پیر ولائیت علی شاہ 01-06-1925 / 01-05-1930
خواجہ ولائت علی شاہ 02-05-1930 / 12-12-1930
سردار ہزارہ سنگھ 13-12-1930 / 01-04-1937
شیخ عبید اللہ 02-04-1937 / 07-06-1938
مولوی غلام رسول 08-06-1938 / 19-01-1941
جناب ایس اے ہارون 20-01-1941 / 26-05-1943
چوہدری عبدالواحد 27-05-1943 / 27-08-1947
جناب ایم اکرم 30-08-1947 / 25-09-1947
شیخ محمد جان 26-09-1947 / 08-04-1949
جناب نیاز الدین 09-04-1949 / 06-07-1950
سید نذر محمد بخاری 07-07-1950 / 03-06-1953
قاضی محمد ظریف 04-06-1953 / 27-05-1954
میر محمد سلطان 28-05-1954 / 19-05-1955
جناب ظفر عالم 20-05-1955 / 28-03-1958
خواجہ منیر حسین 29-03-1958 / 19-09-1960
ظفر اقبال ملک 21-09-1960 / 21-07-1961
خواجہ منیر حسین 22-07-1961 / 19-01-1966
میاں عمر الدین 20-01-1966 / 26-03-1971
جناب نثار احمد مرزا 27-03-1971 / 15-02-1973
جناب سلامت علی ناز 16-02-1973 / 25-05-1973
چوہدری بشیر احمد 26-05-1973 / 25-05-1976
صاحبزادہ محمد نواب 26-05-1976 / 30-06-1976
سید نجم نعمانی 30-06-1976 / 22-06-1977
چوہدری بشیر احمد 23-06-1977 / 01-10-1977
چوہدری ممتاز حسین 04-10-1977 / 20-07-1980
خواجہ ضیا الدین بٹ 21-07-1980 / 13-12-1980
خواجہ عبدالحفیظ 29-01-1981 / 11-07-1981
محمد فاروق 15-07-1981 / 15-11-1984
اکرم حسین کھوکھر 08-05-1985 / 09-06-1994
چوہدری مظہر حسین 12-06-1994 / 04-01-1995
خواجہ دل محمد 05-01-1995 / 09-04-1995
سید محمد عباس شاہد کاظمی 16-04-1995 / 02-08-1999
بلال احمد قمر 02-08-1999 / 26-08-1999
چوہدری ناظم علی 28-08-1999 / 25-10-2004
محمد صدیق انجم 26-10-2004 / 31-05-2007
میاں محمد اقبال 01-06-2007 / 22-06-2010
رائے لیاقت علی کھرل 19-05-2012 / 05-01-2013
حاجی محمد افضل 06-01-2013 / 02-08-2014
چوہدری محمد نصراللہ 29-08-2014 موجودہ ہیڈ ماسٹر