اللہ کی مسجدیں وہی تعمیر کرتے ہیں جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں (القرآن)
اسلام کے سب سے بڑے تبلیغی مراکز مسجدیں ہی تو ہیں کہ جہاں سے اسلام کی نور بھری مشعل ہدائت کی کرنیں پھوٹ کر نکلیں۔ اور اطراف عالم میں پھیل گئیں اور نور اسلام سے گھروں میں اجالا کرتیں چلی گئیں۔
مسجد نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ دین مبین کی اصل اور مستقل بنیادیں یہیں سے استوار ہوتی ہیں۔ قوانین شرعیہ اور احکام ربانی کا اعلان مسجد و منبر سے ہو عموما جاری ہوتا ہے۔ قرآنی تعلیم اور اسلامی درس و تدریس کا سلسلہ اور مخزن الاول یہی مسجد ہے۔ مختصر یہ کہ اسلامی تبلیغی سرگرمیاں مسجدوں کے تعلق کے بغیر نہ صرف نامکمل رہتی ہیں بلکہ بے روح اور پھیکی بھی۔
مسلم معاشرے میں مسجد کا مقام اور اہمیت سے کون واقف نہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں مسجد تعلیم و تربیت، تیاری جہاد اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم رہی ہے۔ مسجد مسلمانوں کے لئے زندگی کے مختلف پہلووں پر سیر حاصل بحث کرنے کے لیے ایک پارلیمانی فورم کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔
مساجد کے انہی کثیر الجہتی فوائد کے باعث ہر دور کے مخیر مسلمانوں نے اس کی تعمیر اور ترقی میں بے دریغ روپیہ صرف کرنا اپنا فرض اولین خیال کیا ہے۔ مسجد کی مسلم معاشرے میں اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو سب سے پہلے جس عمارت کی بنیاد رکھی وہ مسجد ہی تھی۔
مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی بستی میں مسجدیں بنائی ہیں اور آباد بھی کی ہیں۔ اللہ کے فضل سے شرقپور شریف تو بستی ہی اللہ والوں کی ہے۔ یہاں دو درجن سے زیادہ مسجدیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شرقپور شریف کے آباد ہونے سے قبل دریائے راوی یہیں سے گزرا کرتا تھا۔ آرپار جانے والوں کے لئے یہ جگہ بطور گھاٹ (پتن) استعمال ہوتی تھی۔ کشتی کا رسہ کنارے اگی ہوئی ٹاہلی (شیشم) سے باندھا جاتا تھا اور اس ٹاہلی کے قریب ہی جانب مغرب ملاحوں نے کچھ جگہ نماز پڑھنے کے لئے مخصوص کررکھی تھی۔ پھر دریا نے اس جگہ سے کنارہ کشی کی۔ کنارہ دور ہوتا گیا اور فاصلہ بڑھتا گیا۔ مگر وہ ٹاہلی اور سجدہ گاہ یہیں رہ گئی۔ اس کے بعد کچھ آباد کار آئے اور ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔
حضرت علامہ نصرت نوشاہی کی تحقیقی روائت کے مطابق کچھ عرصے کے بعد حافظ الحافظ حافظ محمد صاحب حجرہ شاہ مقیم سے ترک سکونت کر کے تشریف لائے۔ تو انہوں نے ٹاہلی والی سجدہ گاہ پر ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ جب مسجد کی بنیاد رکھی گئی تو آپ نے شرقپور کے بڑے زمیندار، روسا، علما، حکما، حفاظ اور سادات وغیرہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ آپ میں سے کوئی ایک ایسا شخص ہے جس نے کھبی اپنی آنکھ، ہاتھ اور اپنا قدم حرام کی طرف نہ اٹھایا ہو۔ وہ اس خانہ خدا کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھے۔ تاکہ اس کی برکت سے یہ پاک عمارت قائم دائم رہے۔
ان الفاظ کو سن کر تمام حاضرین پر سکتہ کاعالم طاری ہوگیا۔ اور سب نے اپنی اپنی گردن جھکالی۔ تھوڑے توقف کے بعد سب حاضرین نے متفقہ طور پر آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو حرام سے مستشنی ہو اور آپ نے ماشااللہ بچپن سے آج تک قال اللہ و قال الرسول کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آپ ہی اس کا سنگ بنیاد رکھیں۔ چنانچہ کوئی 1699 عیسوی (1111 ہجری) میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور 1700 عیسوی میں یہ کام مکمل ہوا۔
یہ مسجد پکی اینٹوں اور گارے سے بنائی گئی تھی۔ چونے سے بالکل پلستر نہیں کیا گیا تھا۔ اس مسجد کے بانی حافظ محمد اسحاق کے ماموں ہیں۔ علامہ نصرت نوشاہی صاحب کی روائت کے مطابق اس وقت حافظ محمد یعقوب اور حافظ محمد اسحاق حجرہ شاہ مقیم میں تھے۔
حضرت حافظ محمد صاحب قبلہ ایک مرد درویش، مرد کامل اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ قلعہ لال سنگھ کا مالک لال سنگھ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ اور آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔ آپ کا بڑا معتقد تھا۔ آپ سے کہا کہ آپ قلعہ لال سنگھ میں تشریف لے چلیں آپ نے اس کی بات مان لی۔ چنانچہ اپنے بھانجوں حافظ محمد اسحاق اور حافظ محمد یعقوب کو حجرہ شاہ مقیم سے بلا کر مسجد اور مدرسہ کا انتظام ان کے سپرد کیا۔
ازاں بعد حافظ محمد یعقوب کے پوتے میاں صدر الدین جو بڑے امیر کبیر تھے نے یہ مسجد دوبارہ تعیمر کروائی اور ساری رقم اپنی گرہ سے خرچ کی۔ اس لئے انہیں بھی اس مسجد کا بانی کہا جاتا ہے۔ آپ نے اس مسجد کا نام گلبن نور رکھا۔ اور مسجد کے دروازے پر یہ تاریخ تعمیر کی عبارت کندہ کروائی۔
تاریخ تعمیر مسجد ٹاہلی والی
ازعنائت و لطف رب شکور
وز طفیل نبی وآل طہور
خانہ دین بازار سرنو
گشت از سعی صدر دین معمور
سال تعمیر گفت عبدالرسول
مسجد شرقپور گلبن نور
آخری مصرعہ مسجد شرقپور گلبن نور سے دوبارہ تعمیر مسجد کی تاریخ برآمد ہوئی ہے۔ یعنی یہ مسجد 1857 عیسوی (1273 ہجری) میں دوبارہ تعمیر ہوئی۔
میاں صدر الدین ایک تو لاولد تھے دوسرے ان کے دادا حضرت حافظ محمد یعقوب اپنے بھائی حافظ محمد اسحاق سے علیحدہ ہو کر حجرے والے کھوہ پر چلے گئے تھے۔ لہذا ٹاہلی والی مسجد کی تولت حافظ محمد اسحاق اور حافظ محمد یعقوب کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی جو میاں محمد اکرم کی زندگی تک رہی۔
1952عیسوی میں اس کی چھت نہائت کمزور ہو گئی تھی بارش کے دنوں میں ٹپکنے لگتی۔ حاجی محمد حسین کٹاریہ (کاں) نے ایک دن نمازیوں سے کہا کہ مسجد کی چھت نہائت بوسیدہ ہوگئی ہے اس کی دیواریں بھی شکستگی کا شکار ہمیں چاہیے کہ مسجد کی تعمیر نو کریں۔ مگر نفسا نفسی کے عالم میں کسی نے بھی ان کی بات کی طرف توجہ نہ دی۔
ایک دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حاجی محمد حسین قبلہ ثانی لا ثانی حضرت میاں غلام اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا حضور ٹاہلی والی مسجد کی تعمیر نو ہونی چاہیے مگر اس کے لیے زرائع اور وسائل نظر نہیں آتے۔ حضور قبلہ ثانی صاحب نے فرمایا محمد حسین مسجد کس کا گھر ہے ۔ حاجی محمد حسین نے جواب دیا مسجد تو اللہ پاک کا گھر ہے۔ فرمایا جس طرح ہم تم اپنے اپنے گھر بناتے ہیں اور ہمسایوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی ایسے ہی اللہ اپنا گھر بنالے گا۔ فکر نہ کرو۔
ثانی صاحب نے ایک روپیہ اپنی جیب سے نکالا اسے اپنی جھولی میں رکھا فرمایا محمد حسین جھولی پھیلاو۔ پھر اپنی جھولی والا روپیہ محمد حسین کی جھولی میں ڈال دیا اور کہا جاو اللہ کا نام لے کر شروع کرو۔ جو لوگ مسجد کے لیے پیسے دیں انہیں اپنی جھولی میں سمیٹنا۔
پھر کیا تھا لوگوں نے پیسے دینے شروع کردیئے اور مسجد کی تعمیر نو ہوگئی۔ اس کے بعد پھر کوئی پانچ دس سال کے بعد مسجد تھوڑا بہت کام ہوتا رہا۔ ابھی حال ہی میں کچھ عرصہ پہلے مسجد کی محراب اور سامنے والی دیوار میں آئینہ کاری کی گئی ہے۔ دروازہ پر چینی کی ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔
مسجد میں خطابت کے فرائض مختلف علما دین کے ہاتھوں میں رہے ہیں۔ خصوصی طور پر حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری اور صاحبزادہ حضرت علامہ نصرت نوشاہی صاحب نے گیارہ سال تک فی سبیل اللہ خطابت کے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ آج کل مسجد کی خطابت و امامت کے فرائض الحافظ القاری محمد عمر نقشبندی (ایم اے اسلامیات) فاضل جامعہ ہجویریہ داتا دربار لاھور، فاضل تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان سرانجام دے رہے ہیں۔