سکندر اعظم جسے دنیا الیگزنڈر دی گریٹ کے نام سے جانتی ہے 323 قبل مسیح میں پیلا یونان (گریس) میں پیدا ہوا۔ اور 20 سال کی عمر میں اپنے باپ فلپ دوئم کے بعد بادشاہ بنا۔ 30 سال کی عمر تک اس نے شمال مشرقی افریقہ سے لیے کر ایشیا تک اس وقت کی قدیم سلطنتوں میں سب سے بڑی ایک سلطنت قائم کردی تھی۔ وہ اپنی جنگوں میں ناقابل شکست رہا اور تاریخ میں اسے ایک عظیم کمانڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے باپ فلپ کے قتل کے بعد جب وہ تخت پر بیٹھا تو اس نے سب سے پہلے یونان میں ہونے والی بغاوتوں کو کچلا۔ پھر وہ ترکی میں داخل ہوا اور پھر ایران میں اور اس نے اس وقت کی سپر پاور ایران پر متعدد حملے کرکے اس وقت کے دارا ایران کو شکست دی۔ اس کے بعد اس نے یروشلم کو فتح کیا اور پھر بابیلون (عراق) کو فتح کرکے وہ مصر کی طرف بڑھا اور اپنے راستے میں آنے والے تمام علاقوں کو فتخ کرتا ہوا وہ ہندوستان کی طرف بڑھا اور ہندوستان میں راجہ پارس کو شکست دی۔ ہندوستان میں اپنے محبوب گھوڑے کی موت پر اس نے پھالیہ شہر کی بنیادرکھی۔ یہاں سے واپسی پر جب سکندرمکران کے علاقے جہلم اور میانوالی (موجودہ پاکستان کے شہر) سے گزررہا تھا تو اس کی آرمی کے گھوڑوں نے پتھروں کو چاٹنا شروع کردیا یہ ان کے لیے بڑی حیران کن بات تھی اور اس کے علاوہ اس کی آرمی کے وہ بیمار گھوڑے جنہوں نے بھی ان پتھروں کو چاٹا سب ٹھیک ہوگے (یہ آج کے پاکستان میں موجود کیھوڑہ نمک کی کان) کی دریافت تھی۔ لیکن اس کان میں سے نمک کی کھدائی اوراس کی تجارت مغل بادشاہوں کے دور میں شروع ہوئی۔ خیر جب سکندر واپس جارہا تھا تو اس کو بخار نے آگیرا اور اسی بخار کی وجہ سے 33 سال کی عمر میں بخت نصر کے محل بابیلون میں فوت ہوگیا۔ دنیا اس کو ایک عظیم فاتح اور بادشاہ کے طور پر جانتی ہے اور تاریخ میں اسے ایک ناقابل شکست فاتح کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن آج اکسیویں صدی میں ہم تاریخ دانوں کے آگے یہ سوال رکھ سکتے ہیں کہ کیا واقعے ہی سکندر ایک عظیم جنرل تھا اور اس کے مقابلے میں کوئی جنرل پیدا نہیں ہوا۔ شاید یورپین تاریخ دانوں نے صیح طرح حضرت عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کا جائزہ نہیں لیا۔ ورنہ وہ اس کو کبھی بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے میں ایک عظیم فاتح نہ کہہ سکتے۔ آئیے ہم دنیا کے ان دونوں فاتحوں کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون صیح معنوں میں عظیم فاتح تھا۔
سکندر جب بادشاہ بنا تو اس کی عمر 20 سال تھی 16 سال کی عمر تک اس کو دنیا کے بہترین استاد ارسطو سے تعلیم دلاوئی گئی تھی۔ اس کو سکھانے کے لیے دنیا کےبہترین گھوڑ سوار، تیر انداز، نیزاباز اور تلوار بازی میں فن یکتہ رکھنے والے استاد مہیا کیے گئے تھے۔ جبکہ کے دوسری جانب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پچھلی سات پشتوں میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا۔ انہوں نے اونٹوں کو چرواتے ہوئے اپنی جوانی میں قدم رکھا تھا۔ انہوں نے تلوار بازی، تیر اندازی یا گھوڑ سواری کسی استاد سے نہ سیکھی تھی۔
سکندر نے اپنے 10 سالہ دور میں 18 لاکھ مربع میل کا علاقہ ایک مضبوط اور ٹرینڈ آرمی کے ساتھ فتح کیا۔ جب کہ دوسری جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 10 سال میں نہ صرف 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیر کسی ٹرینڈ آرمی کے فتح کیا بلکہ اس وقت کی سپر پاورز روم اور ایران کو بھی شکست دی۔ سکندر نے ان تمام مشہور جنرلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو اس کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ حتکہ کے اس کی اپنی فوج نے بھی ہندوستان میں اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور مزید آگے جانے سے انکار کرتے ہوئے واپسی کا دنگل بجادیا۔ جبکہ دوسری جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قسم کے لیڈر تھے کہ دوران جنگ انہوں نے اپنے سب سے کامیاب ترین جنرل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عہدے سے ہٹا دیا لیکن کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرسکے اور حضرت خالد بن ولید نے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس عہدے سے دستبردار ہوگئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ عراق کی گورنری سے ہٹا دیا، انہوں نے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جائدار کو ضبط کرنے کا حکم جاری کیا۔ انہو ں نے حرس کے گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور پر اونٹ چرانے پر لگا دیا۔ لیکن کسی بھی ان کے کسی ایک فیصلے کے خلاف آواز بلند نہ کی کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ تمام فیصلے میرٹ اور انصاف پر مبنی تھے۔
سکندر نے 18 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا مگر وہ دنیا کو کوئی نیا سسٹم نہ دے سکا۔ مگر دوسری جانب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دنیا کو بہت سے ایسے سسٹم دیے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
سب سے پہلے فجر کی اذان میں (أصلوأة خير من النوم) کا اضافہ آپ ہی کے دور میں کیا گیا۔
باجماعت تراویخ نماز کا آغاز ان ہی کے دور میں باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔
انہوں نے شراب پینے والوں کے لیے سزا کا عمل نافذ کیا۔
انہوں نے اسلامی ہجری سال کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے موذنوں کی تنخوایں مقرر کیں۔
انہوں نے رات کو مسجدوں میں روشنی کرنے کے لیے دیئے جلانے کا بندوبست کیا۔
انہوں نے ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیادرکھی جہاں وہ خود بھی عدالتی حکم پر جوابدہ ہوسکتے تھے۔
انہوں نے مجرموں کے لیے جیل سسٹم کے آئیڈیے کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے فصلوں اور زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہری نظام کی بنیاد ڈالی اور دریاوں سے نہریں نکالیں گئیں۔
انہوں نے پہلی مرتبہ آرمی ایف او بی (فارورڈ آپریٹنگ اڈوں) کی بنیاد رکھی اور ہر چند کلو میڑ کے بعد ایک ایف او بی بنائی گئی جہاں ہر وقت تازہ دم گھوڑے تیار رہتے تھے اور جو کسی بھی قسم کی تیز ترین پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتے تھے اس لیے پیغام رساں کو تھکے ہوئے گھوڑے کو تازہ دم کرنے کے لیے کہیں بھی رکنا نہ پڑتا تھا۔ پیغام رساں کو ہر بیس سے ایک تازہ دم گھوڑا مل جاتا تھا۔
انہوں نے فوج کے ایک مکمل ادارے اور اس کی ذیلی شاخوں (ڈیپارٹمنٹس) کی بنیاد ڈالی۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ یتیموں اور بیواوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ ڈاکخانے (پوسٹ آفس) کے نظام کی بنیاد ڈالی۔
انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ پولیس کے لیے یونیفارم پہنے کے لیے حکم لاگو کیا۔
ان کی میز پر کبھی بھی دو کھانے ایک ساتھ پیشں نہیں کیے گے تھے انہوں نے ہمیشہ سادگی سے زندگی بسر کی۔
وہ سفر میں اپنے بازو کا یا کسی پتھر کا تکیہ بنا کر زمین پر سو جایا کرتے تھے۔
ان کے لباس پر بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے۔ وہ کھردرا اور رف کپڑا پہننے کے عادی تھے انہوں نے کبھی باریک لباس نہیں پہنا۔
انہوں نے جب بھی کسی کو گورنر نامزد کیا ہمیشہ اسے نصیحت کی کہ کبھی ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔ (اس وقت کے زمانے میں ترکی گھوڑے امیروں کی شان وشوکت کو دکھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے)۔
انہوں نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔
انہوں نےکھبی اپنے دروازے پر سیکورٹی گارڈ کو کھڑا نہیں کیا تا کہ وہ آنے والےسائیلین کو روک نہ سکے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ لیڈر وہ ہے جو انصاف کرتا ہے اور سکون کی نیند سوتا ہے۔
ان کی سرکاری مہر پر یہ فقرہ لکھا ہوا تھا۔ "اے عمر نصیحت کے لیے موت کو یاد کرنا ہی کافی ہے۔"
ان کے کہے ہوئے الفاظ (بچہ اپنی ماں کی کوکھ سے آزاد پیدا ہوتا ہے تم نے کب سے اس کو غلام بنا لیا) آج بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک چارٹر (قانون) کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب ان کی وفات ہوئی (شہید کیا گیا) تو اس وقت بھی وہ قرضے میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کا قرض ان کا گھر بیچ کر ادا کیا گیا تھا۔
اگر آج کے مورخ سکندر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیات کا مقابلہ کریں تو سکندر کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک پہاڑ کے سامنے ایک چھوٹا سا پتھر۔ سکندر کی قائم کی ہوئی سلطنت اس کے مرنے کے پانچ سال کے اندر ختم ہوگئی۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جن جن علاقوں اور ملکوں کو فتح کیا گیا وہاں آج بھی اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور روزانہ پانچ وقت اذان کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
برصیغر کی تقسیم کے دوران ایک مرتبہ جب مسلمان برطانوی کمپنی کے خلاف لڑ رہے تھے تو لاھور کے مسلمانوں نے برطانوی کمپنی کو دھمکی دی کہ اگر ہم گھروں سے باہر نکل آئے تو تم چنگیز خان کو بھول جاو گئے۔ تو اس وقت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ افسوس مسلمان اپنی تاریخ کو بھلا بییھٹے ہیں۔ اور وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے اندر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا ایک عظیم لیڈر اور سپہ سلار بھی تھا جو یہ چنگیز خان کی مثال دے رہے ہیں۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جنہیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دعا کر کے مانگا تھا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کے بارے میں رحمتہ اللہ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کو دیکھ کر شیطان رستہ بدل لیتا تھا۔
وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جن کی بہادری اور فتوحات کو دیکھ کر یہودی بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر عمر 10 سال اور زندہ رہ جاتے تو پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔
یہ وہی عمر ہیں جو آج ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں راحت فرما رہے ہیں۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو صیح معنوں میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔