کچھ دن پہلے فیس بک پر ایک اور شخص کا اخبار کو جوائن کرنے کا اعلان تقرری ایڈ دیکھا۔ تو ذہین میں سوال نے جنم لیا کہ ہر روز ایک نیا اخبار (پرنٹ میڈیا) ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ اور ہر میڈیا کا ایک نیا نمائندہ۔ پرنٹ میڈیا اور رپورٹروں کی اتنی بھر مار ہوگئی ہے۔ کہ ہر دوسرا شخص صحافی بننے کو تیار بیٹھا ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ آج اس کرپٹ معاشرے میں اگر پاور حاصل کرنی ہے تو صحافی بن جاو۔ کسی بھی اخبار کا بھیج اپنے گلے میں لٹکاو اور کہیں بھی گھس جاو اور کسی پر بھی اپنے اخبار کے بل بوتے پر رعب جماو، یا پھر کسی بھی ناکے پر پولیس یا قانون کے محافظ اگر آپ کو روکیں تو اپنا اخبار کا کارڈ دیکھا کر فورا ہی نکل جاو کوئی آپ کو نہیں روکے گا۔ بدقسمتی سے اگر آج آپ کو تحصیل شرقپور میں 50 کے قریب صحافی نظر آتے ہیں تو ان میں سے صرف 4 یا 5 ہی پڑھے لکھے ہوں گے یا اس قابل ہوں گے کہ وہ معاشرے کی برائیوں کو ہائی لائیٹ کرنے کے لیے کوئی کالم / بلاگ یا کوئی مضمون لکھ سکیں۔ زیادہ تر رپورٹروں کو اپنی ہی خبر ٹائپ کرنی بھی نہیں آتی وہ دوسروں سے جا کر خبر ٹائپ کرواتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں معاشرے کی فلاح اور بہتری کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟؟ پیسے اور پاور کی لالچ نے صحافتی اقتدار کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ ہر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نمبر 1 کی دوڑ میں لگا ہے۔ چاہیے اس کے لیے ان کو کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ اور اس کے لیے ان کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رپوٹروں کو اپنے اخبار سے منسلک کریں چاہیے ان کی تعلیمی قابلیت صفر ہو۔ صحافت کو اس نازک دور میں پہچانے میں میڈیا ملکان کا بھی بڑا ہاتھ ہے جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے اس لیے زیادہ تر انہوں نے جو لوگ ملازم رکھے ہوتے ہیں ان کو تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ الٹا ان کو اشتہارات اکھٹا کرنے کے لیے پریشرائیز کیا جاتا ہے اور وہ صحافی ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اس پیسے کے لالچ میں آپ کو ہر دوسرے اخبار میں واہیات قسم کے اشتہارات جن میں عامل جادوگر بابا، جنسی تعلقات کی ادوایات، عطائی ڈاکڑوں اور دوسرے ایسے بہت سے لوگوں کے اشتہارات نظر آجائیں گے جن کا مقصد لوگوں کو لوٹنا ہوتا ہے۔ اخبار مالکان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کا معاشرے پر کیا اثر ہوتا ہے ان کا مقصد صرف پیسے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ایماندار صحافی جو اس مقدس پیشے سے وابستہ ہیں اپنی خاموشی کو توڑیں اور اس تمام سسٹم کے خلاف آواز اٹھائیں اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک پریس کلبوں میں اصل صحافت سے وابستہ لوگ نہیں آتے۔ اور یہ پریس کلب اپنا ایک معیار مقرر کریں کہ کوئی بھی ایسا غیر صحافی شخص جس کی تعلیمی قابلیت صفر ہے اس پریس کلب کو جوائن نہیں کرسکے گا اور نہ وہ اس کے کسی اجلاس یا میٹنگ میں شامل ہوگا۔ اور پریس کلب اس بارے میں انتہائی سخت رول پر کاربند ہوگا کہ کوئی بھی ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا شخص اس شعبہ سے وابستہ نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور پریس کلبوں کو چاہیے کہ وہ گاہے بگاہے اپنے ادارے سے وابستہ لوگوں کی تربیت کا آغاز کریں۔ اور کچھ نہیں تو مہینے میں ایک بار صحافیوں کی کلاس لی جائے اور کسی بھی ایسے سینئر اور پڑھے لکھے صحافی، کالج کے پروفیسر یا پی ایچ ڈی لیول کے شخص جس کو اس فیلڈ کے بارے میں سمجھ بوجھ ہو اس کی خدمات حاصل کرکے صحافت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو لیکچر دیے جائیں اور ان کی تربیت کی جائے اور ان کو ان کے قلم کا صیح استعمال سکھایا جائے تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ صیح معنوں میں اپنے قلم سے جہاد کرسکیں اور خیالات کو قلم کے رستے سطروں میں ڈھال سکیں۔ صحافت کا مقصد کسی بھی قسم کی معلومات تک رسائی، معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کا تجزیہ اور پھر ان کو اس طرح عام عوام یا حکومتوں کے سامنے پیش کرنا ہے کہ وہ ان معلومات کی بنیاد پر ملکوں یا اپنی زندگیوں کے فیصلے کرسکیں۔ لیکن اگر آپ معاشرے کی برائیوں کو اجاگر کرکے ان کے حل کے لیے کوئی تجزیہ نہیں کرسکتے اوران خیالات کو سطروں میں نہیں ڈھال سکتے تو پھر آپ صحافی نہیں اور نہ آپ کو صحافی کہلوانے کا حق حاصل ہے۔
ملک عثمان - شرقپور ڈاٹ کام
اس بلاگ کو ہمارے فیس بک پیچ پر پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک کو برواز میں کاپی پیسٹ کر کے وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/SharaqpurDotCom/posts/1682671801743203
اس کے علاوہ صحافت کیا ہے اور پاکستان میں صحافت کا معیار۔ اس پر آپ میرا دوسرا کالم پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر وزٹ کرسکتے ہیں۔
http://sharaqpur.com/BlogInformation.aspx?bid=31