مولانا اکبر علی شرقپوری حضرت ثانی لا ثانی میاں غلام اللہ شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ موضع پرانی بھینی نزد شرقپور شریف میں 1937 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام چراغ دین تھا۔ آپ اپنے دوسرے دو بھائیوں محمد حسین اور غلام حسین سے چھوٹے تھے۔ آپ بچپن ہی سے شرقپور شریف میں حضرت ثانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی زیر کفالت اور زیر تربیت رہے۔ حضرت ثانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بذات خود ان کو فارسی کی کتابیں پڑھائیں اور دینی تعلیم آپ نے جامعہ حضرت میاں صاحب سے حاصل کی۔ آپ کی شادی 1958 میں ہوئی مگر آپ کے لیے رشتہ کا انتخاب حضرت ثانی صاحب نے ہی کیا تھا۔
1957تک آپ نے اپنے شیخ طریقت کی خدمت دل و جان سے سرانجام دی۔ ان کے وصال کے بعد آپ فخر المشائع حٖضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے بھی ان سے ویسی شفقت فرمائی جیسا کہ حضرت ثانی صاحب ان سے فرمایا کرتے تھے۔ مولانا اکبر علی ان سے بہت ذیادہ مانوس ہو گئے۔ آپ نے اپنادست شفقت ان کے سر پر رکھا۔ ان کو دارالمبلغین حضرت میاں صاحب میں بطور مدرس مقرر کیا۔ اس کے بعد ان کا خلوص و محبت دیکھ کر حضرت میاں صاحب قبلہ نے ان کو تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب کے سفیر کے فرائض بھی سونپ دیئے، جن کو انہوں نے دل وجان سے نبھایا۔ اس دینی درسگاہ کی تعمیر و ترقی کے لئے کراچی سے لیے کر پشاور تک ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور اس کے فروغ کے لیے اپنی تمام صلاحتیں بروئے کار لائے۔ آپ بڑے ملنسار، خوش مزاج، محنتی انسان تھے، ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ علما کرام، مشائخ عظام، نعت خواں حضرات کی خدمت کرنا ان کا شعار تھا۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ شرقپور شریف کے متولین کے ساتھ ان کا رابطہ ہر قصبہ، ہر شہر اور ہر صوبہ میں رہتا تھا۔ آپ عرس کی تقریبات کے انتظامی امور کے انچارج تھے۔ سلسلہ عالیہ کے کام کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ انتظامی امور میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی۔ اعلی حضرت شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے برادار حقیقی اور سجادہ نشین حضرت ثانی لا ثانی میاں غلام اللہ شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کے عرسوں کے موقع پر لنگر کا انتظام، پنڈال لگانے اور جلسہ گاہ کو آراستہ کرنے کے لیے ملک بھر سے آئے ہوئے بزم جمیل اور بزم شیرربانی کے صدور اور اراکین سے بار بار رابطہ کرتے۔ ان کو ضروریات کاخیال رکھتے، ان کے آرام ورہائش اور طعام کا بندوبست کرتے۔ عرس پر آئے مہمانوں کی مہمان نوازی ان کا شعار تھا۔ دارلمبلغین حضرت میاں صاحب کے فارغ التحصیل طلبا اور حفاظ کی دستار بندی کا گرم جوشی سے اہتمام کرتے۔ بزم شیر ربانی اور بزم جمیل کے اراکین کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنا پنجابی کلام عرس کی محفل میں پیش کرتے اور دوست احباب کی شادیوں پر سہرا لکھتے اور پڑھتے تھے۔
مولانا اکبر علی بلند حوصلہ انسان تھے۔ وہ نہ کسی سے ناراض ہوتے اور نہ کسی سے جھگڑے کی کوشش کرتے۔ ہر کسی سے محبت خلوص اور پیار سے پیش آتے تھے۔ اپنے شاعرانہ کلام سے ہر کسی کو خوش رکھتے تھے۔ برزگان دین سے ان کو والہانہ عقیدت ومحبت تھی۔ وہ کئ بار حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی اور حضرت خواجہ خواجگان معین الدین چشتی اجمیری، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی۔ حضرت امیر خسرو اور حضرت علی احمد صابر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے عرسوں میں شمولیت کے لیے ہندوستان گئے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت دواود بندگی کرمانی شیر گڑھی، حضرت شاہ مقیم محکم دین حجرہ شاہ مقیم، حضرت دیوان، حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم نوری، حضرت موسی پاک شہید، حضرت حافظ جمال الاولیا ملتانی، حضرت خواجہ غلام فرید ، حضرت سخی سرور، حضرت سلطان العارفین سلطان باہو اور حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے مزاروں پر جانے والے قافلے ، جو حضرت فخر المشائخ صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری کی زیر قیادت ہر سال جاتے تھے، اس میں ہر سال بطور منتظم شامل ہوتے تھے۔ آپ کو حج بیت اللہ شریف اور حرمین شریفین کی حاضری کا بھی شرف حاصل تھا۔ المختصر آپ حج و زیارت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔آپ کو اپنے پیر خانے سے بے حد عقیدت تھی اور آپ اپنی خوش بختی اور خوش نصیبی کا اظہار ان الفاظ سے فرماتے تھے کہ میں وہ خوش قسمت انسان ہوں جس نےاعلیٰ حضرت شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کے سجادہ نشین حضرت ثانی لاثانی، حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری دامت برکاتہم العالیہ، اور ان کے صاحبزادگان میاں خلیل احمد، میاں سعید احمد اور میاں جلیل احمد شرقپوری اور ان کے صاحبزادوں کی زیارت کی ہے۔
آپ ایکے اچھے مقرر بھی تھے۔ شاہدرہ کی جامع مسجد میں آپ بطور خطیب خدمات آخر وقت تک انجام دیتے رہے۔ آپ ٹھیٹھ پنجابی میں تقریر کرتے تھے آپ کا خطاب بڑا پرتاثیر ہوتا تھا۔ آپ کی ہر بات دلوں میں بیٹھتی تھی۔آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور شاعر اہلسنت کا خطاب آپ کو ملا ہوا تھا۔۔آپ کی شاعری عام طور پر پنجابی میں ہوتی تھی۔ نعت اور بزرگان دین کی مقبتیں اکثر لکھا کرتے تھے۔ حضورقبلہ ثانی صاحب کی ایک منقبت میں آپ نے یوں فرمایا۔
حٖضرت شیرربانی دے باغ اندر بن کے رہے نیں سدا بہار ثانی
ایس گل دے وچ نہ شبہ کوئی ولیاں وچ ہو گئے تاجدار ثانی
ایتھے جو آوے خالی نہ جاوے رہوے وسدا تیرا دربار ثانی
تہانوں شیر ربانی دا واسطہ اے بیڑا کر دینا میرا پار ثانی۔
آپ شرع شریعت کے پابند تھے، سفر وحضر میں نمازوں کا خاص خیال رکھتے تھے رات کو نوافل بھی پڑھتے تھے۔ روزوں کی خصوصی پابندی فرماتے۔ آپ کی باتیں مزاح سے بھی مزین ہوتی تھیں۔ جس محفل میں بیٹھ جاتے وہ محفل قہقہ بار بن جاتی تھی۔ سنا گیا ہے اوائل عمر میں آپ بڑے کھلنڈرے تھے مگر ثانی صاحب کی نگاہ سے ایسی تبدیلی آئی کہ ہر آنکھ کے تارے بن گئے۔ مگر اف یہ تارا جلدی چھپ گیا۔ یہ یکم دسمبر 1992 کی بات ہے کہ آپ آستانے کے کسی کام کی غرض سے پرانی سبزی منڈی میں جارہے تھے کہ اچانک دل کا شدید دورہ پڑا اور دل کی دھڑکن بند ہو گئی اور آپ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
حضرت مولانا اکبر علی کی نیک سیرت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کے وصال کے کوئی چھ ماہ کے بعد اس قدر بارشیں ہوئیں کہ ان کی قبر بیٹھ گئی اور ان کا جسد خاکی دکھائی دینے لگا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ویسے ہی آرام فرما رہے ہیں جیسے سوئے ہوئے ہوں ان کا چہرہ ویسے ہی تروتازہ تھا۔ یہاں تک کہ انیں دفن کرتے وقت محبت سے جو کچھ پھول ان کی قبر میں رکھ دئیے گئے تھے وہ بھی تروتازہ تھے۔ یہ سب بزرگوں کے در کی غلامی کا پھل تھا۔
وہ ہر ایک سے محبت کرتے تھے۔ محبت ہی بانٹتے تھے ان کی طبیعت میں غصہ بالکل نہ تھا۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے ہیں۔ ثمین اکبر (جنرل کونسلر) اور شاہین اکبر، دونوں باپ کی طرح شریف اور بڑوں کا ادب کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت مولانا اکبر علی مرحوم پر اپنی رحمتوں کا نزول جاری رکھے۔ آمین۔
بحوالہ مطالعہ نقوش شرقپور تصنیف و تالیف محمد انور قمر شرقپوری اور ہفتہ روزہ فخر ملت فیصل آباد مورخہ یکم جنوری 1993۔