پاکستان میں صحافت اور اس کا معیار

21/02/2017  (7 سال پہلے)   1957    کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن
اس سے پہلے کہ میں پاکستان میں صحافت اور اس کے معیار پر بات کروں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ صحافت ہے کیا اور ایک صحافی کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ 
 
صحافت کیا ہے ؟
عام فہم زبان میں کسی بھی انفارمیشن تک رسائی اس کے بارے میں معلومات کو اکھٹا کرنا اور پھر اس کو بنا سنوار کر عام لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا نام صحافت ہے۔ یا پھر ان واقعات کے بارے میں لوگوں کو بتانا ہے جن کے بارے میں وہ پہلے سے نہ جانتے ہوں اور اگر جانتے ہوں تو مکمل معلومات نہ ہوں۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق صحافت کا مطلب کسی بھی قسم کی معلومات اور اس کے مطلق کی گئی کمنٹری کو اکھٹا کرنا، تیار کرنا اور پھر پمفلٹ، خبرنامے، اخبارات، رسائل، ریڈیو،  ٹیلی ویژن، کتابوں، بلاگز، ویب کاسٹ، ای میل یا پھر اس قسم کے دوسرے زرائع کے زریعے ا ن کو تقسیم کرنا ہے۔
 
صحافت کا مقصد کیا ہے ؟
صحافت کا مقصد کسی بھی قسم کی معلومات تک رسائی، معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کا تجزیہ اور پھر ان کو اس طرح عام عوام یا حکومتوں کے سامنے پیش کرنا ہے کہ وہ ان معلومات کی بنیاد پر ملکوں یا اپنی زندگیوں کے فیصلے کرسکیں۔
 
صحافت کے لیے استعمال ہونے والے میڈیم یا ذرائع
صحافت کے لیے عام طور پر درج ذیل ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ 
 
نشریاتی صحافت - یہ ٹی وی اور ریڈیو کی خبروں کو کور کرتی ہے اس میں صحافی دو طریقوں سے کام کرتے ہیں سامنے رہ کر آن ایئر یا پردے کے پیچھے رہ کر۔ یہ پردے کے پیچھے رہ کر بہت ساری ریسرچ اور رپورٹنگ کرتے ہیں۔ لیکن ان کی شکلیں اور آوازیں براڈکاسٹ نہیں کی جاتیں۔
پرنٹ میڈیا - اس میں عام طور پر صحافی اخبارات، رسائل یا مختلف مطبوعات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ ایک وقت میں ایک فل ٹائم رپورٹر بھی ہوسکتے ہیں یا پھر فری لانس یا پھر مخصوص یا وقتی طور پر لکھنے والے بھی۔
تصاویری صحافت - تصاویری صحافت عام طور پر دوسری فوٹو گرافی سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں صحافی کسی واقعے کی تصاویر اتارتے ہیں جو ایک مکمل کہانی پیش کرتی ہیں۔
آڈیو یا ملٹی میڈیا صحافت -  یہ صحافت کی ایک نئ قسموں میں سے ایک قسم ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملٹی میڈیا صحافت میں اوپر والی تمام قسمیں آجاتی ہیں۔ کیونکہ ایک ویب پیج میں ایک سٹوری بھی ہوسکتی ہے، تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز بھی۔ اس میں ایک صحافی کا بہت ساری صلاحیتوں اور ٹیکنیکل چیزوں پرعبور ہونا لازمی ہے۔
 
 
صحافت کی اقسام
صحافت مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے یا ہو سکتی ہے جن میں خبریں، رائے دہی اور آئن لائن صحافت وغیرہ شامل ہیں۔
 
خبریں 
بریکنگ نیوز - خبروں میں سب سے پہلے بریکنگ نیوز آتی ہے جس میں لوگوں کو کسی واقعے کے بارے میں اس وقت بتانا ہے جب وہ رونما ہورہا ہو۔
فیچر سٹوریز - یہ وہ خبریں ہیں جو کسی بھی چیزیا واقعے کے بارے میں ایک دلچسپ اور تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہیں۔
تحقیقاتی خبریں -  یہ وہ خبریں جن کے زریعے ان معلومات تک رسائی حاصل کی جاتی ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوتے ہیں۔
 
رائے دہی
اداریے -یہ وہ کالم ہیں جن میں پبلیشر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔
کالم - یہ وہ رپورٹنگ ہے جس میں مصنف کسی چیز کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے اور اس کے نتیجے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔
تجزیے - اس میں مختلف کنسرٹ، ریستوران، سپورٹس ایونٹ یا فلم کے بارے میں تجزیے پیش کیے جاتے ہیں۔
 
آئن لائن صحافت
بلاگز - یہ آئن لائن انفرادی لوگوں کی یا گروپس کی ڈائری ہوتی ہے۔
ڈسکشن یا بحث کے بورڈ - ان فورمز میں سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔
ویکیز - یہ وہ آئن لائن کالم ہیں جن میں کوئی بھی دوسرا پڑھنے والا تبدیلیاں یا اضافہ کرسکتا ہے۔
 
 
بہت سے صحافی اپنے آپ کو اوپر والے میڈیم یا صحافت کے زرائع جن کو وہ استعمال کرتے ہوئے اپنی سٹوریز بتاتے ہیں وہ ان کے زریعے اپنی تعریف نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے کام کے لحاظ (کیٹیگری) سے اپنی تعریف کرتے ہیں ان کیٹیگریز میں
سپورٹس
کاروبار
سیاست
آرٹس اور کلچر
تعلیم
جرائم
وغیرہ شامل ہوسکتی ہیں۔
 
ایک صحافی کی ذمہ داریاں
اگر آپ آج پاکستان میں دیکھیں تو ہر دوسرے دن ایک ٹی چینل تو نہ سہی مگر ایک نیا پرنٹ میڈیا ضرور نکل رہا ہے، پاکستان میں ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا اس رفتار سے بڑھتے جارہے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر دوسرے شخص میں اس قوم کے لیے ایک درد جاگ گیا ہے۔ جو اپنے قلم سے جہاد کرکے اس ملک کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیا حقیقت میں ایسا ہی ہو رہا ہے ؟  اس سے پہلے کے میں اس نازک ٹاپک پر بات کروں سب سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کہ ایک صحافی کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں اور کیا وہ صحافت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ کیونکہ ہر وہ شخص جو مائیک کو پکڑ کر کیمرے کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے یا وہ کسی واقعے کی تصاویر اتار کر اپنے میڈیا کو بھیجتا ہے صحافی نہیں ہوتا۔
کسی بھی اچھے صحافی میں درج ذیل خصوصیات ہونی چاہیں:
 
سچائی کی کھوج: ایک صحافی جو معلومات یا حقائق کو پیش کرتا ہے ان کو تصدیق شدہ اور سچائی پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اور وہ اس قابل ہوں کہ ان پر لوگ اپنی روزمرہ زندگیوں کے فیصلے لیے سکیں۔
پہلی وفاداری عوام کے لیے: ایک صحافی کی پہلی وفاداری قوم اور معاشرے کے لیے ہونی چاہیے نہ کے اس کے میڈیا کے لیے۔ کیونکہ ایک ایماندار صحافی لوگوں کے لیے کام کرتا ہے نہ کے کسی میڈیا گروپ کے لیے۔
قانونی ذمہ داریاں : ایک صحافی اپنے پیشے میں ہمیشہ لوگوں کے فائدے کے علاوہ قانون کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور وہ کبھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ خاص طور پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں اور ان کی پرایوسیوں کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا۔
معلومات کے حصول کے لیے نظم وضبط: ایک اچھا صحافی اپنی معلومات کی تصدیق مختلف زرائع سے کرتا ہے اور ان میں پیشہ ورانہ ڈسپلن رکھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر کی تصدیق خود کرے نہ کے پروپیگنڈے اور افسانوں پر یقین کرے۔
غیر جانبدارانہ صحافت: ایک اچھا صحافی ہمیشہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہبی، سیاسی، گروہی یا لسانی گروپوں سے جدا رکھ کر اپنا کام کرتا ہے اور وہ اپنے کام کا خود سب سے بڑا نقاد ہوتا ہے۔
 
یہ ٹاپک اتنا وسیع ہے کہ شاید میں اس کو اھر پورا کور نہ کرسکوں اور آپ بھی پڑھتے ہوئے شاید بور ہو جائیں۔ میں آخر میں صرف یہی کہنا چاہوں گا۔ کیا واقع ہی ہم لوگ جو صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے پوری کر رہے ہیں۔ کیا واقعتا ہم لوگ، لوگوں اور عام عوام کے مسائل کے حل کے لیے کام کررہے ہیں۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند ایک صحافیوں کو چھوڑ کر ایسا نہیں ہورہا۔ آپ کو ہر گلی محلے میں کسی نہ کسی اخبار کا ایک آدھ نام نہاد صحافی مل جائے گا جس کو شاید اپنا نام بھی صیح طور پر لکھنا نہ آتا ہو مگر وہ اپنے میڈیا چینل کا بھیج لٹکائے اس طرح چاروں طرف دندناتہ نظر آرہا ہوتا ہے جسیے اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ صحافی ہے۔اس کے لیے اس نے اپنی موٹر سائیکل، گاڑی اور کپڑوں پر بڑے بولڈ انداز میں اپنے میڈیا گروپ کا نام پرنٹ کروا کر چسپاں کیا ہوتا ہے تا کہ کوئی قانون کا محافظ، سرکاری محکمہ یا کوئی اور اسے نہ روک سکے اور وہ جس مرضی شریف آدمی کی چاہے اسے بلیک میل کرکے عزت اچھال سکے ۔  صحافت کبھی شرافت کا دوسرا نام ہوا کرتا تھا مگر آج کل صحافت غنڈا گردی کا دوسرا نام بنتی جا رہی ہے۔ اس لیے آپ کو جگہ جگہ پرنٹ میڈیا، ٹی وی چینلز اور ریڈیو وغیرہ سے وابستہ نام نہاد صحافی تو نظر آئیں گے مگر صحافت کہیں نظر نہیں آئے گی۔ اور تو آپ کو ہر شہر میں تین یا چار پریس کلب بھی نظر آجائیں گے جنہوں نے اپنے اپنے الگ الگ دھڑے بنا رکھے ہیں۔ اور ان کی سیاسی وابستگیاں ہیں۔ زیادہ تر کا مقصد ان سیاسی وابستگیوں سے تعلقات اور پیسہ بنانا ہے۔ اور پھر ان پریس کلب کے عہدوں پر جو لوگ بیھٹے ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ان کی کوئی قابلیت ہوتی ہے۔ صحافت کو اس نازک دور میں پہچانے میں میڈیا ملکان کا بھی بڑا ہاتھ ہے جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے اس لیے زیادہ تر انہوں نے جو لوگ ملازم رکھے ہوتے ہیں ان کو تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ الٹا ان کو اشتہارات اکھٹا کرنے کے لیے پریشرائیز کیا جاتا ہے اور وہ صحافی ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اس پیسے کے لالچ میں آپ کو ہر دوسرے اخبار میں واہیات قسم کے اشتہارات جن میں عامل جادوگر بابا، جنسی تعلقات کی ادوایات، عطائی ڈاکڑوں اور دوسرے ایسے بہت سے لوگوں کے اشتہارات نظر آجائیں گے جن کا مقصد لوگوں کو لوٹنا ہوتا ہے اور اخبار مالکان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کا مقصد صرف پیسے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ایماندار صحافی جو اس مقدس پیشے سے وابستہ ہیں اپنی خاموشی کو توڑیں اور اس تمام سسٹم کے خلاف آواز اٹھائیں اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک پریس کلبوں میں صحافت سے وابستہ لوگ نہیں آتے۔ اور یہ پریس کلب اپنا ایک معیار مقرر کریں کہ کوئی بھی غیر صحافی شخص اس پریس کلب کو جوائن نہیں کرسکے گا اور نہ وہ اس کے کسی اجلاس یا میٹنگ میں شامل ہوگا۔ اور پریس کلب اس بارے میں انتائی سخت رول پر کاربند ہوگا کہ کوئی بھی ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا شخص اس شعبہ سے وابستہ نہ ہوگا۔ اور یہ پریس کلب سیاسی وابستگیوں سے الگ ہوکر عام عوام اور صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ صحافت جہاں آج یورپ اور امریکہ میں ایک سائنس بنتی جارہی ہے اور اس شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہیں۔ تا کہ صحافی صیح معنوں میں حالات و واقعات اور معاشیات اور معاشرے میں ابھرنے والے برائیوں کا تجزیہ کرسکیں اور ان کے ادراک کے لیے آواز اٹھا سکیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی معیار مقرر نہیں اور نہ ہی کوئی ایسے ادارے ہیں جہاں کم پڑھے لکھے صحافیوں کی تربیت کی جاسکے اور ان کو صیح معنوں میں صحافت کے اسرارورموز سمجھائے جاسکیں۔
امید کرتا ہوں کہ پڑھے لکھے اور ایماندار صحافی آگے آئیں گے اور اس سلسلے میں اپنی آواز اٹھائیں گئے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
ویلنٹائن ڈے کیا ہے۔
11/02/2018  (6 سال پہلے)   1786
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

بسنت میلہ (کائیٹ فیسٹیول) اور ہماری روایات
04/02/2018  (6 سال پہلے)   1883
کیٹیگری : فن اور ثقافت    قلم کار : ایڈمن

سرفس ویب، ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں۔
29/01/2018  (6 سال پہلے)   2393
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
21/01/2018  (6 سال پہلے)   1290
کیٹیگری : سپورٹس اور گیمنگ    قلم کار : ایڈمن

حضرت حافظ محمد اسحٰق قادری رحمتہ اللہ علیہ
15/01/2018  (6 سال پہلے)   1831
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

وقار انبالوی ایک شاعر، افسانہ نگار اور صحافی
11/01/2018  (6 سال پہلے)   3281
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب
11/12/2017  (7 سال پہلے)   1905
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ناموس رسالت اور ہمارا ایمان
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1796
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1821
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

بارکوڈز کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں۔
30/10/2017  (7 سال پہلے)   1951
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ٍصحافتی اقتدار اور ہماری ذمہ داریاں
12/09/2017  (7 سال پہلے)   5571
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

پوسٹ آفس (ڈاکخانہ) شرقپور شریف
29/03/2017  (7 سال پہلے)   2761
کیٹیگری : دیگر    قلم کار : ایڈمن

ہمارا معاشرہ اور کمیونٹی سروس
24/03/2017  (7 سال پہلے)   1985
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

حاجی ظہیر نیاز بیگی تحریک پاکستان گولڈ میڈلسٹ
19/03/2017  (7 سال پہلے)   2311
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

جامعہ حضرت میاں صاحب قدس سرہٰ العزیز
16/03/2017  (7 سال پہلے)   2225
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

آپ بیتی
15/03/2017  (7 سال پہلے)   2272
کیٹیگری : سیاحت اور سفر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ مسجد ٹاہلی والی
13/03/2017  (7 سال پہلے)   2191
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی
11/03/2017  (7 سال پہلے)   2793
کیٹیگری : سائنس    قلم کار : ایڈمن

حضرت سیدنا سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ
02/03/2017  (7 سال پہلے)   2201
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

انٹرنیٹ کی دنیا
01/03/2017  (7 سال پہلے)   2024
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
28/02/2017  (7 سال پہلے)   2264
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابرہہ کی خانہ کعبہ پر لشکر کشی
27/02/2017  (7 سال پہلے)   3152
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

خطہ ناز آفریں - شرقپور
21/02/2017  (7 سال پہلے)   1954
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

امرودوں کا شہر شرقپور
11/02/2017  (7 سال پہلے)   4560
کیٹیگری : خوراک اور صحت    قلم کار : ایڈمن

دنیا کا عظیم فاتح کون ؟
30/01/2017  (7 سال پہلے)   1818
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4572
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4643
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟
06/10/2016  (8 سال پہلے)   1796
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

شرقپور کی پبلک لائبریری اور سیاسی وعدے
26/09/2016  (8 سال پہلے)   2172
کیٹیگری : تعلیم    قلم کار : ایڈمن

شرقپور میں جماعت حضرت دواد بندگی کرمانی شیرگڑھی
17/08/2016  (8 سال پہلے)   4919
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

تحریک آزادی پاکستان اورشرقپور
14/08/2016  (8 سال پہلے)   2690
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں