تحریک آزادی پاکستان اورشرقپور

14/08/2016  (8 سال پہلے)   2652    کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

تحریک آزادی پاکستان میں شرقپور کے نوجوانوں کا ایک اہم کردار رہا ہے، جس کے بارے میں شاید ہماری نئی نسل بہت کم جانتی ہے۔ شرقپور ڈاٹ کام کی جانب سے ہم خصوصی طور پر تحریک آزادی پاکستان اور اس میں شرقپور کے نوجوانوں کا کردار پر پوسٹ کررہے ہیں تا کہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو سکے۔

پاکستان کی تحریک آزادی میں شرقپور کے نوجوانوں نے ایک یادگار اور دلیرانا کردار ادا کیا۔ شرقپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں سب سے پہلے نوجوانوں کا جو اسکواڈ پکڑا گیا تھا ان کا تعلق شرقپور سے تھا۔ آزادی وطن اور تحریک پاکستان میں ہر اس شخص کو شامل سمجھا جا سکتا ہے جس نے پاکستان کے لیے کوئی بھی کام کیا ہو۔ پاکستان کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگایا ہو۔ پاکستان یا مسلم لیگ کا پرچم اٹھایا۔ کوئی اشتہار یا بینر لگایا یا ووٹ دیا۔ یہ سب کام شرقپور کے نوجواںوں نے کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ میں یہاں کے لوگوں نے ایک اہم باب بھی رقم کیا ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تحریک پاکستان میں شرقپور شریف کی شرکت بھرپور جذبات کی حامل ہے۔ شرقپور شریف میں یونینسٹ پارٹی کا زور تھا۔ یہاں مسلم لیگ کا نام لینا یہاں کی سیاست سے دشمنی مول لینا کے مترادف تھا۔ لوگوں کے دل چاہتے تھے کہ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائیں مگر ان کے لبوں پر ایک خوف مسلط ہو جاتا تھا۔ آخر یہ سکوت کی لہریں ٹوٹیں نوجوانوں نے آستینیں چڑھا کی گلی گلی اور محلہ محلہ میں مسلم لیگ زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کیئے۔ یہ جرات ان نوجوانوں میں کیسے آئی اس کے پس منظر میں شرقپور شریف کے بزرگوں کا کردار ہے۔ جب 1946 کے انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھییں تو حضرت قائداعظم ؒ نے سوچا کہ برصغیر کے مشائخ کو اعتماد میں لئے بغیر مسلم لیگ کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ چنانچہ کشمیری رہنما چودھری غلام عباس کو ہمراہ لے کر علی پور سیداں میں پہنچے اور پیر سید حضرت جماعت علی شاہ صاحبؒ سے ملاقات کی۔ عرض کیا۔ 1946 کے انتخابات سے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی تقدیر وابستہ ہے۔ اگر مسلمانوں نے بیداری اور ہوشیاری سے کام نہ لیا تو ایک نہایت اہم موقعہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ کا تعلق چونکہ ملک کے گوشے گوشے کے مسلمانوں سے ہے اور آپ کی ہربات سر آنکھوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ ہم آپ سے اسی عظمت اور مرتبے کے حوالے سے عرض کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے دعا اور تعاون فرمائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ فرمایا۔ آپ نے اپنے مریدین سے کہا کہ جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف سجادہ نشین حضرات کو خطوط بھی لکھے اور خود بھی ملے۔ جن میں پیر آف مانکی شریف (سید امین الحسنات) سرفہرست ہیں۔ اس فہرست میں حضرت قبلہ ثانی صاحب میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی شامل تھا۔ حضرت قبلہ ثانی صاحب میاں غلام اللہ رحمتہ اللہ علیہ اسی سلسلے میں ملکانہ دروازہ شرقپور شریف میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کروایا جس کی صدارت حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ نے خود فرمائی اور معزز مہمان جو باہر سے تشریف لائے ان میں راجہ غضنفر علی
شیخ کرامت علی
چوہدری روشن دین بھنگو
صوفی عبدالحمید
میجرعاشق حسین
چودھری محمد حسین چٹھہ
ملک محمد انور
میاں افتخار الدین
اور دیگر عظیم رہنما شامل تھے جلسہ کا آغاز دن کے 10 بجے ہوا اور اڑھائی گھنٹے تک اس کی کاروائی جاری رہی۔ لوگ آخر وقت تک جم کر بیٹھے رہے۔ اس جلسہ میں 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کی ایک تھیلی بھی مسلم لیگ کو پیش کی گئی۔ جلسے کے سارے اخراجات حضر قبلہ ثانی صاحب نے خودبرداشت کیے۔ اب مسلم لیگ کو شرقپور شریف میں ایک پلیٹ فارم پر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ حضرت قبلہ ثانی صاحبؒ اس کے سرپرست تھے ۔ اس جلسے کے بعد چھوٹی بڑی میٹنگیں اکثر ہوتی رہیں۔ اور ضلعی اجلاس میں آپ شرکت فرماتے رہتے۔ بلکہ آپ نے پنجاب میں ایک بھرپور دورہ کیا۔ اس سلسلے میں آپ کے لاھور، امرتسر، فیروز پور، لائل پور (فیصل آباد) سرگودھا، جھنگ، میانوالی، سائیوال (سابقہ منٹگمری)، ملتان، بہاولپور کے دورے کیے جو بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ آپ کی یہ کوشش خوب رنگ لائی۔ اللہ نے مسلم لیگ کو کامیابی عطا فرمائی اور مخالفین کے منہ کھلے کہ کھلے رہ گئے۔ اس سے قبل مسلم لیگ کی مقامی تنظیم معرض وجود میں آچکی تھی۔ جس کے صدر میاں محمد اسماعیل کابلی تھے۔ شیخ محمد رفیق بجاج، جںرل سیکرٹری حاجی ظہیر نیاز بیگی اس تنظیم کے روح رواں تھے۔ اسی دوران مسلم لیگی نیشنل گارڈ کی بھی تشکیل ہو چکی تھی۔ اس کے صدر میاں فقیر اللہ کھراونہ، نائب صدر شیخ محمد رشید بجاج اور سینئر نائب صدر میاں محمد رفیق کھراونہ تھے۔ جب کہ جنرل سیکرٹری حاجی فضل احمد مونگا تھے۔ ہر ہفتے کے بعد ان کے اجلاس ہوتے اور کاروائی کا باقاعدہ ریکارڑ رکھا جاتا۔ چنانجہ ایک بار شیخوپورہ کی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے بعض زعما یہاں تشریف لائے تو اس ریکارڈ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اور پھر پورے ضلع کی تنظیموں کو ان کی تقلید کرنے کی ہدایت کی۔ مسلم لیگ نیشنل گارڈ شرقپور کے سارے ممبران نویں اور دسویں جماعتوں کے طالب علم تھے۔ جوان جذبوں اور گرم خون کے مالک تھے۔ عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے ایک ماہر استاد ملک محمد ابراہیم رکھا گیا اور ان کی معاونت معراجدین سابق ریٹائرڈ فوجی محلہ نبی پورہ نے بھی کی۔ ان نوجوانوں نے تلوار چلانا، بلم کے گھاو لگانا، لاٹھی اور چھڑی کا استعمال سیکھا۔ گتکہ اور چاقوزنی میں خوب مہارت حاصل کی۔ یہ تربیت اس لیے ضروری سمجھی گئی کیونکہ اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ اعلان پاکستان کے بعد جب انتقال آبادی ہوگا تو برے لوگ قتل وغارت گری جیسی وارداتیں کرنے سے نہیں چوکیں گئے۔ یہ نوجوان قریب کے دیہاتوں میں بھی جاتے اور تعمیر وطن کے لیے کام کرتے۔ پنجاب میں چونکہ خضر حیات ٹوانہ وزیر اعلیٰ تھے۔ اور یونینسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کامیاب ہو۔ چنانچہ ان کے ایما پر حکومت برطانیہ نے پنجاب مسلم لیگ کے سارے لیڈر گرفتار کر لیے۔ اور صوبہ بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ اب حاجی ظہیر نیاز بیگی نے نیشنل گارڈ کے نوجوانوں میں ایک تازہ ولولہ پیدا کیا اور ان کےجذبات کو ابھارا کہ اہم دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر کے اسے توڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں آپ پر تین باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔
اول ہم نے شرقپور شریف سے جا کر لاھور میں گرفتاری دینی ہے۔ اگر ہمیں حکومت گرفتار کر لیتی ہے اور ہماری تحریک خدانخواستہ فیل ہوجاتی ہے تو ممکن ہے ہمیں پھانسیاں دی جائیں یا عمر قید کی سزا دی جائے۔ جس طرح 1857 میں ہوا تھا۔ تو اس صورت میں اگر آپ نے کمزوری دکھائی اور گورنمنٹ سے کہا ہمیں معافی دی جائے کہ ہم بچے ہیں اور ہمیں ورغلایا گیا تھا۔ تو یاد رکھیں آپ ایسی بات نہیں کریں گئے۔
دوم ۔ متحدہ پنجاب سے ہمارا یہ جتھہ جارہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ گورنمنٹ حکم دے کہ ان سب کو گولیوں سے بھون دو۔ تو گولی چھاتی پر کھانی ہے۔ یہ نہیں کہ پیٹھ دکھا کر بھاگ جاو۔
سوئم ۔ ہمارے اس جتھے پر حکومت ہندووں یا سکھوں کے کسی جتھے کوشہ دے کر حملہ کروادے اور ہمیں قتل کروادے۔
یاد رکھیں ہم قربانی دینے جارہے ہیں۔ ہمیں مندرجہ بالا صورتوں میں کوئی بھی صورت پیشں آسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میں اتنی ہمت ہے تو اس کے لیے آپ اچھی طرح اپنے دلوں کو ٹٹول لیں۔ آپ نے بس ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سب نوجوانوں نے حاجی ظہیر نیاز بیگی کی ان باتوں پر کہا اللہ ہماری مدد کرے گا۔ ہم اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
پروگرام کے مطابق یہ قافلہ چل دیا۔ کرائے پر ایک گاڑی لی جسے شہر سے ایک میل باہر کھڑا کیا گیا اور ایک ایک دو دو کی صورت میں اس تک پہنچ گئے کیونکہ خطرہ تھا کہ پولیس سختی کر کے انہیں منتشر نہ کر دے۔ مسلم لیگ کا ایک جھنڈا ساتھ لیا۔ پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے، دریائے راوی کو عبور کیا۔ مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑی کے آگے لہرا دیا اور نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اب گاڑی لوہاری دروازے میں کھڑی کی گئی اور دو دو کی ٹولیوں میں لائین بنا کر میو ہسپتال روڈ سے ہوتے ہوئے نسبت روڈ پر گئے۔ پھر یہاں سے لکشمی چوک پہنچے۔ جہاں اس وقت مسلم لیگ کا دفتر تھا۔ وہاں سے دریافت کیا گیا کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ وہ کہنے لگے ہمیں ابھی تک سول نافرمانی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مگر یہ نوجوان تو بس گرفتار ہونے کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے مال روڈ سے گزرتے ہوئے اسمبلی ہال کے سامنے جا کر مظاہرہ کیا۔ لیکن یہاں کسی نے ان نوجوانوں کع گرفتار نہیں کیا۔ حالانکہ یہ نعرہ بازی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے نعرے یہ تھے۔
نعرہ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
لے کے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاالہ الاللہ
پنجاب پولیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد
ٹوڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد
انگریز وہمارا ملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ دو

ان نوجوانوں کے ساتھ بہت سے دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے گے۔ اور یہ سب مال روڈ سے نیلا گبند میں آئے اور پھر انار کلی میں داخل ہو گئے۔ انار کلی اس وقت چند مسلمانوں کی دوکانوں کے علاوہ ہندووں کا بازار تھا۔ انہوں نے اس جلوس کو دیکھا تو فورا دوکانیں بند کرنی شروع کر دیں۔ بمبے کلاتھ کے قریب پولیس گارڈ آئی اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ پھر گرفتار کر کے تھانے میں لے گئے۔ ان نوجوانوں میں بائیس افراد شامل تھے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں۔ حاجی ظہیر ںیاز بیگی، شیخ محمد رفیق، شیخ منور علی، شیخ احمد علی، شیخ رنگ الہی، بابو محمد رشید، چراخ دین، شیخ فقیر اللہ، شیخ محمد رشید، محمد ابراہیم، ریاض حسین شاہ، حاجی فضل احمد، شیخ عبدالرشید، شیخ عبدالعزیز، شیخ نذیر احمد، صادق علی شاہ، شیخ بشیر احمد، شیخ ریاض احمد، شیخ فٖضل کریم، شیخ محمد لطیف۔ تھانہ کا انچارج سکھ تھا اور اے ایس آئی مسلمان تھا۔ تھوڑی دیر حوالات میں بند کیا پھر گاڑی میں بٹھا کر سنٹرل جیل فیروزپور روڈ میں لیجایا گیا۔ ان نوجوانوں نے رستے میں خوب نعرہ بازی کی۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسلمان تھانیدار نے شیخ رنگ الہی کے سینے پر ریوالور رکھ دیا۔ کہا چپ کرتے ہو یا ہمیشہ کے لیے چپ کروادوں۔ نوجوان نے چھاتی تان دی کہا مارو گولی ہم تو مرنے کے لیے ہی آئے ہیں۔ ہمت ہے تو اپنا شوق پورا کر لو۔ مگر کسی نے کوئی گولی نہ چلائی۔ اب اس نے اپنا ریوالور ہوسٹر میں رکھا اور نوجوان کو تھپکی دی اور کہا شاباش میں آپ کا حوصلہ دیکھنا چاہتا تھا۔ میں بھی مسلمان ہوں اور دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی کامیاب کرے۔ شرقپور شریف کے یہ نوجوان بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ وہ خوب پروان چڑھی۔ ملک کے گوشے گوشے میں ایسی گرفتاریاں ہونے لگیں۔ وہ ایسے قیدیوں کو گاڑیوں میں بھر کر لے جاتیں اور دور ویرانوں میں چھوڑ دیتں۔ سنٹرل جیل جہاں شرقپور کے نوجوان بند تھے وہیں مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر بھی بند تھے۔ جن میں نواب ممدوٹ، شیخ صادق حسن، شیخ کرامت علی (جو بعد میں وزیر بھی بنے) تھے۔ یہ سب نوجوانوں کے پاس آتے ان کے حوصلوں کی بلند رکھتے۔ نواب ممدوٹ نے وعدہ کیا کہ وہ ان نوجوانوں کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے شرقپور شریف میں آئیں گے۔ جب پاکستان بن گیا اور نواب ممدوٹ پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو وہ واقعتہ شرقپور شریف میں تشریف لائے اور ایک گھنٹہ تک ان نوجوانوں کے درمیان میں رہے۔ اور پھر مسلم لیگ کی تنظیم کے عہدہ داروں سے بھی ملے۔
انہیں دنوں حضرت مولانا محمد بخش مسلم صاحب بھی اس تحریک کے تحت گرفتار ہو کر سنٹرل جیل میں آئے۔ وہ ان سب قیدیوں کو نمازیں اور جمعے پڑھاتے اور درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا تعلق روحانی اعتبار سے شرقپور شریف سے تھا۔ لہذا وہ شرقپور شریف کے ان نوجوانوں سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے۔ انہیں تھپکیاں دیتے اور حوصلوں کو بلند رکھنے کی تلقین کرتے۔ حضرت قبلہ ثانی صاحب شرقپوریؒ حاجی فضل الہی مونگہ صاحب کے ساتھ ان نوجوانوں کی خیریت دریافت کرنے کیلئے آتے انہیں پھول اور تحفے اور پھلوں کی ٹوکریاں دی جاتیں۔ لاھور کے اکثر جیالے نوجوان بھی آتے، فروٹ، بسکٹ اور سگریٹ دے جاتے۔ ان نوجوانوں کے والدین بھی آتے انہیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آتے۔ روزانہ جیل کے باہر ایک سہانا سماں بندھا رہتا تھا۔ ان نوجوانوں اور مسلم لیگ کے اکابرین کا پرعظمت کردار شرقپور شریف کی پیشانی کی چمک میں مزید اضافہ اس وقت کرتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے حکومت سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا۔
شرقپور کو اپنے ایسے سپوتوں پر ہمیشہ ناز رہے گا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
ویلنٹائن ڈے کیا ہے۔
11/02/2018  (6 سال پہلے)   1714
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

بسنت میلہ (کائیٹ فیسٹیول) اور ہماری روایات
04/02/2018  (6 سال پہلے)   1755
کیٹیگری : فن اور ثقافت    قلم کار : ایڈمن

سرفس ویب، ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں۔
29/01/2018  (6 سال پہلے)   2278
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
21/01/2018  (6 سال پہلے)   1211
کیٹیگری : سپورٹس اور گیمنگ    قلم کار : ایڈمن

حضرت حافظ محمد اسحٰق قادری رحمتہ اللہ علیہ
15/01/2018  (6 سال پہلے)   1757
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

وقار انبالوی ایک شاعر، افسانہ نگار اور صحافی
11/01/2018  (6 سال پہلے)   3145
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں صاحب
11/12/2017  (7 سال پہلے)   1824
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ناموس رسالت اور ہمارا ایمان
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1648
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ
21/11/2017  (7 سال پہلے)   1728
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

بارکوڈز کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں۔
30/10/2017  (7 سال پہلے)   1765
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

ٍصحافتی اقتدار اور ہماری ذمہ داریاں
12/09/2017  (7 سال پہلے)   5486
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

پوسٹ آفس (ڈاکخانہ) شرقپور شریف
29/03/2017  (7 سال پہلے)   2634
کیٹیگری : دیگر    قلم کار : ایڈمن

ہمارا معاشرہ اور کمیونٹی سروس
24/03/2017  (7 سال پہلے)   1882
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

حاجی ظہیر نیاز بیگی تحریک پاکستان گولڈ میڈلسٹ
19/03/2017  (7 سال پہلے)   2209
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

جامعہ حضرت میاں صاحب قدس سرہٰ العزیز
16/03/2017  (7 سال پہلے)   2089
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

آپ بیتی
15/03/2017  (7 سال پہلے)   2190
کیٹیگری : سیاحت اور سفر    قلم کار : ایڈمن

جامعہ مسجد ٹاہلی والی
13/03/2017  (7 سال پہلے)   2101
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی
11/03/2017  (7 سال پہلے)   2691
کیٹیگری : سائنس    قلم کار : ایڈمن

حضرت سیدنا سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ
02/03/2017  (7 سال پہلے)   2102
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

انٹرنیٹ کی دنیا
01/03/2017  (7 سال پہلے)   1951
کیٹیگری : ٹیکنالوجی    قلم کار : ایڈمن

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
28/02/2017  (7 سال پہلے)   2178
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

ابرہہ کی خانہ کعبہ پر لشکر کشی
27/02/2017  (7 سال پہلے)   3064
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

خطہ ناز آفریں - شرقپور
21/02/2017  (7 سال پہلے)   1885
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : ایڈمن

پاکستان میں صحافت اور اس کا معیار
21/02/2017  (7 سال پہلے)   1844
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

امرودوں کا شہر شرقپور
11/02/2017  (7 سال پہلے)   4455
کیٹیگری : خوراک اور صحت    قلم کار : ایڈمن

دنیا کا عظیم فاتح کون ؟
30/01/2017  (7 سال پہلے)   1738
کیٹیگری : تاریخ    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4510
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

حضرت میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی رحمتہ اللہ علیہ
15/10/2016  (8 سال پہلے)   4601
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟
06/10/2016  (8 سال پہلے)   1751
کیٹیگری : سماجی اور سیاسی    قلم کار : ایڈمن

شرقپور کی پبلک لائبریری اور سیاسی وعدے
26/09/2016  (8 سال پہلے)   2074
کیٹیگری : تعلیم    قلم کار : ایڈمن

شرقپور میں جماعت حضرت دواد بندگی کرمانی شیرگڑھی
17/08/2016  (8 سال پہلے)   4749
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : ایڈمن

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں