شرقپور میں ہر سال 8 مارچ کو ایک قافلہ آتا ہے جس کو جماعت کہا جاتا ہے۔ یہ قافلہ چناب کے کنارے واقع ضلع گجرانوالہ کے ایک گاوں سے راونہ ہوتا ہے جس کے امیر خلیفہ جماعت میاں منیر حسین قادری صاحب ہوتے ہیں۔ یہ قافلہ مختلف جگہ پڑاو کرتا ہوا 8 مارچ کی شام شرقپور میں داخل ہوتا ہے۔ شرقپور میں ایک رات رکنے کے بعد یہ اگلی صبح 9 مارچ کو روانہ ہو جاتا ہے۔ اس قافلے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ شرقپور شریف میں سائیں شہاب الدین رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے اور حاجی علی حیدر نوشاہی کے بیٹے قاری علی عابد نوشاہی جماعت کے امیر کی میزبانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ اور کھانا فراہم کرتے ہیں۔ ساری رات جشن کا سماں ہوتا ہے۔ اگلی صبح جب جماعت روانہ ہوتی ہے تو اردگر کے گاوں کے سینکڑوں مردوخواتین جمع ہو جاتے ہیں اور شرقپور میں ایک میلے کا سا سمع بندھ جاتا ہے۔ چھتوں اور منڈیروں پر خواتین یہ منظر دیکھنے کے لیے چڑھ آتی ہیں۔ کئی لوگ منتیں مانتے ہیں اور اس قافلے میں شامل جن لوگوں نے جھنڈے پکڑے ہوتے ہیں ان کے ساتھ تھیلیوں میں پیسے یا اپنی منتوں کے کاغذ باندھ دیتے ہیں۔ ایک رات شرقپور شریف میں رکنے کے بعد اگلی صبح یہ قافلہ چوک شیرربانی میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے جہاں پر ایک میلے کا سا ساماں بندھ جاتا ہے۔ لوگ اس موقع پر اس قافلے پر پیسے سکوں کی صورت میں نچھاور کرتے ہیں اور مخانے اور مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ چوک شیرربانی میں اکھٹا ہونے کے بعد یہ قافلہ دربار سائیں شہباب الدین کے مزار پر حاضری دینے کے بعد اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دیتا ہے اور ان کے مزار کے سامنے جہاں پر عرس ہوتا ہے اکھٹا ہوتا ہے اور پھر شرقپور کے نواحی گاوں سلطان پور اور نور پور کی جانب روانہ ہو جاتا ہے جہاں سے ہوتا ہوا آگے دریائے راوی کے ساتھ ساتھ شیر گڑھ کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ اس جماعت کے موقع پر شرقپور میں کتوں کی ایک لڑائی بھی ہر سال ہوتی ہے۔ جس مں دور دور سے لوگ اپنے مختلف نسل کے پالتو کتوں کو لیے کر آتے ہیں اور ان کو آپس میں لڑواتے ہیں۔ حالانکہ کہ یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے بے زبان جانوروں کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہر سال لوگ دور دور سے اپنے اپنے کتوں کو لڑوانے کے لیے کر آتے ہیں۔
حضرت دواد بندگی کرمانی رحمتہ اللہ علیہ حضرت موسیٰ المبارکہٰ کی 28 ویں نسل میں سے تھے جو کہ حضرت امام محمد التقی ابن حضرت امام علی رضا کے بیٹے تھے۔ آپ کے دادا اور پرداد نے کرمان سے سیتپور، مظفر گڑھ میں 1410 عیسوی میں ہجرت کی۔ آپ کی پیدائیش سیتپور میں 1513 عیسوی میں ہوئی۔ وقت کے نامور علماء کرام کے ہاتھوں دیپالپور اور لاھور میں باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، شیخ داؤد بندگی کرمانی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام دنیاوی اور مادی سرگرمیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے روحانیت کی تلاش میں عبادت میں بہت وقت خرچ کیا. شیخ داؤد بندگی کرمانی اویسی طریقت سے تعلق رکھتے تھے، یہ کسی بھی براہ راست استاد یا مرشد کے بغیر تھی۔ بعد میں آپ نے ستگرہ میں شیخ حامد گیلانی کے ہاتھوں پر بعیت کر لی اور قادری سلسلہ میں شمولیت اختیار کی۔ باضابطہ طور پر بااثر قادری سلسلہ کا رکن بننے کے بعد حضرت داور بندگی نے شیر گڑھ ضلع اوکاڑہ میں اپنی خانکاہ آباد کی جو کہ لاھور اور ملتان کے درمیان واقعہ ہے۔ آپ کے آنے کے بعد شیر گڑھ قادری سلسلہ کا گڑھ بن گیا اور شیر گڑھ کی اس خانقاہ نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ 16ویں صدی کے مشہور مورخ عبدالقادر بدوانی 1572 عیسوی میں شیرگڑھ آئے اور چار روز تک یہاں رہے۔ عبدالقادر بدونی کے مطابق جب مغل بادشاہ جلال دین محمد اکبر پاکپتن آیا تو وہ شیرگڑھ سے ہو کر گزرہ اور اس نے یہاں ان بزرگ کی بہت تعریف سنی اور وہ ان سے ملنے کا خواہش مند ہوا۔ جنرل شہباز خان کمبوہ اکبر بادشاہ کے دربار کا اہم آفیسر حضرت داود بندگی کرمانی کی بارگاہ میں ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کے لیے آیا۔ شیخ داودبندگی کرمانی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ اپنے آپ کو دنیاوی جاہ وجلال اور دولت والے لوگوں سے دور رکھتے تھے جنرل شہباز خان کے ہاتھوں بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ بادشاہ کو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھتے ہیں لہذا اس کو ذاتی طور پر دعا کروانے کے لیے آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ حضرت دواد بندگی کرمانی رحمتہ اللہ کی روحانی طاقت تھی کہ آپ نے ایک بڑی تعداد میں پنجاب کے ہندو جاٹ اور راجپوت قبیلوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ وہ قبائل جو آپ کی بدولت مکمل طور پر یا جزوی طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہو گے ان میں چھٹہ، چیمہ، ورک، ہنجرہ، دیوہتر، وڑائچ، گروہی، مان اور سانسی جن کا تعلق گجرانوالہ سے تھا شامل تھے۔ اس کے علاوہ ضلع سیالکوٹ سے باجوہ، بصرہ، چیمہ، گھمن، کہلون، گراہی، ساہی اور سندھو جب کہ ضلع ساہیوال سے احرار، ھان، ہوتینہ اور بلوچ شامل تھے۔ آپ نے 1575 عیسوی میں شیر گڑھ میں وفات پائی. آپ کے چند مشہور شاگردوں میں سے شاہ عبدالمولائی کرمانی قادری جو کہ آپ کے بھتیجے اور داماد تھے۔ ملا عبدالقادر بدوانی اکبر بادشاہ کے دور کے مشہور مورخ، شیخ جلال الدین الیاس بہلول دہلوی جو کہ مولانا عبدالکلام آزاد کے آباواجداد تھے اور شیخ ابو اسحاق مزنگی شامل تھے۔ شیر گڑھ میں آپ کا مزار ابتدائی مغل فن و تعمیر کی ایک شاندار مثال ہے۔ آپ کا سالانہ عرس 13 مارچ سے 17 مارچ ہر سال شیرگڑھ میں ہوتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کو خراج عقیدت پیشں کرنے کے لیے شامل ہوتےہیں جن کہ وجہ سے ان کے آباو اجداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ قافلوں کی شکل میں پیدل ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
کیونکہ حضرت داود بندگی کرمانی شیر گڑھی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی تعلیمات اور تبلیغ کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں پنجاب کے ہندو جاٹ اور راجپوت قبیلوں کو مشرف بہ اسلام ہونے کا موقع ملا۔
اس لیے ان قبائل کی اولادوں نے عقیدت کے طور ہر سال حضرت داود بندگی کرمانی شیرگڑھی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر پیدل حاضری دینی شروع کی۔ شروع میں یہ قافلہ چند افراد پر مشتمل تھا مگر پھر آہستہ آہستہ اس میں ہر سال مزید لوگ شامل ہوتے گئے اور یہ ایک کارواں کی شکل اختیار کرگیا۔ ان لوگوں کا مقصد نیک تھا کہ صرف اور صرف حضرت دواد بندگی کرمانی شیر گڑھی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینی اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنا۔
مگر پچھلے کچھ سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس قافلے میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے اس کو کوئی اور ہی رنگ دے دیا ہے۔ اس میں کچھ ایسی حرکتیں شروع ہو گئی ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ عورتیں بے پردہ ہو کر چھتوں پر چڑھ جاتی ہیں اور ہر گزرنے والے غیر محرم مرد کی نظر ان پر ہوتی ہے حتی کے کچھ منچھلے ان پر آوازے کستے ہیں یا چھیڑنے کے لیے ان پر کچھ چیزیں پھینکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈھول کی تھاپ پر اور گانوں کی طرز پر ڈانس کیے جاتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ بچپن میں جب اپنی گلی میں سے گزرا کرتے اور اگر گلی میں عورتیں باہر بھٹیں ہوتیں تو وہ اپنے چہرے پر چادر سے پردہ کرلیا کرتے۔ تو وہ عورتیں آپ کی والدہ ماجدہ سے کہتیں کہ آپ کا لڑکا تو بلکل لڑکیوں جیسا ہے جو عورتوں کو دیکھ کر پردہ کرلیتا ہے۔ آپ کی والدہ نے جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا جب عورتیں باہر گلی میں بے پردہ ہوکر غیر محرم مردوں کے سامنے بیٹھی ہوں تو پھر مردوں کو ان سے پردہ کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ اس جماعت کے موقع پر شرقپور میں کتوں کی ایک لڑائی بھی ہر سال ہوتی ہے۔ جس مں دور دور سے لوگ اپنے مختلف نسل کے پالتو کتوں کو لیے کر آتے ہیں اور ان کو آپس میں لڑواتے ہیں اور بے زبان جانوروں کو آپس میں لڑوا کر ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اس بات کی اجازت ہمارا مذہب بھی نہیں دیتا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو رحمتہ اللہ العالمین تھے آپ نے تو جانوروں پر بھی رحم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ حتی کے شکار کے جانوروں کے بارے میں بھی فرمایا کہ جب تک تمہیں بھوک کی طلب نہ ہو بے وجہ شکار مت کرو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جماعت کے موقع پر ان غیر شرعی حرکتوں سے اجتناب کیا جائے ۔ اس کے علاوہ اس جماعت کے خلیفہ صاحب اور اس جماعت کے میزبان ایسی محافل کا انعقاد کریں جہاں لوگوں کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس جماعت کا پس منظر بتایا جائے اور ان کو غیر شرعی حرکتوں سے روکا جائے۔