شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
کائنات حسن تو ہے اک نگار دل نشیں
چومتی ہے آسماں کی روشنی تیری جبیں
دامن دل کھینچتا ہے تیرا ہر منظر حسیں
تو ہے اک گہوارہ امن واماں اے نازنیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
آفتاب آتا ہے تیری رونمائی کے لئے
چاند اتراتا ہے تیر آشنائی کے لئے
کہکشائیں جھک رہی ہیں جبہ سائی کے لئے
روشنی پھیلی ہوئی ہے سب تیرے زیر نگیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
خوشنما حد نظر تک باغ وبن سروسمن
لہلاتی کیھتیوں میں سبزہ زاروں کی پھبن
نکہت فصل بہاراں انجمن در انجمن
طائران خوش نوا کے زمزمے و جد آفریں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
رونقیں تیری جمال دیدہ ایام ہیں
چارسو بکھرے دل کش نظارے عام ہیں
نوع انساں کے لئے جو کیف کا پیغام ہیں
دیدہ دل کے لئے کیا تیرے دامن میں، نہیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تیری یہ گلیاں، محلے، بام ودر، نقش ونگار
جن سے تہذیب وتمدن کی جھلک ہے آشکار
ماہرین علم وفن کی ہیں سنہری یادگار
جانتا ہے یہ حقیقت جو بھی ہے تیرا مکیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
اولیا ؒ اللہ کا تو ایک مرکز فیضان ہے
تو ہماری زندگی ہے، توہماری جان ہے
تو ہماری آبرو ہے، تو ہماری آن ہے
چشم قدرت کا ہے تو ہی انتخاب اولیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
انتخاب ہفت کشور، سرزمین اولیا
ارض پاکستان میں گہوارہ نورو ضیا
منزل اہل سعادت، مسکن اہل وفا
جلوہ گاہ اہل دانش، خواب گا اہل دیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تو زمیں پر آسماں کا آفتاب نور ہے
اولیا اللہ کی برکات سے بھر پور ہے
ذرہ ذرہ، گوشہ گوشہ ترجمان طور ہے
کونسی ایسی صفت ہے جو عیاں تجھ میں نہیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تو حدیث دلبراں ہے، تو فروغ انجمن
تک رہی ہے تیری جانب ہر ادائے جسم وتن
نافہ مشک ختن ایسا ہے تیرا ہر چمن
روح پرور ہے بہت تیری فضائے عنبریں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تو محبت کا نشاں ہے، تو شرافت کا نشاں
سج رہا ہے تیرے اوپر تخت فقر عارفاں
تیری خاک گل فشاں، شادابیوں کے درمیاں
ایسے لگتا ہے کہ آنکھوں میں ہے فردوس بریں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تیرا ماضی، تیری عظمت کا مثالی دور تھا
خوبصورت شہر تیرا مختصر لاھور تھا
حال تیرا اور ہے، گرچہ ماضی اور تھا
تیرا مستقبل بھی انشااللہ ہوگا بہتریں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
وقت کی دہلیز پر لمحات جو آتے رہے
تیرے ماتھے کا سویرا چوم کر جاتے رہے
تذکرے کرتے رہے، تاریخ دہراتے رہے
تیرے پاس آتے رہے جو لوگ دنیا سے کہیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
حق تعالیٰ کے کرم نے شادرکھا ہے تجھے
ہر صدی، ہر دور میں آباد رکھا ہے تجھے
دشمنوں کے ہاتھ سے آزاد رکھا ہے تجھے
کون ہوسکتا ہے تجھ سا کوئی بھی پھر خشمگیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
ہم تجھے بھولیں کھبی یہ بات ہوسکتی نہیں
صبح تاباں ہے جو تیری رات ہوسکتی نہیں
تیری عظمت، تیری شہرت مات ہوسکتی نہیں
شاد باد اے افتخار اولین و آخریں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
اپنے دل سے کب بھلا تجھ کو جدا کرے ہیں ہم
جو بھی ہیں، جیسے بھی ہیں تجھ سے وفا کرتے ہیں ہم
بارگاہ حق تعالیٰ میں دعا کرتے ہیں ہم
حامی وناصر ہو تیرا فضل رب العالمین
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
تیرے زندہ دل جواں مردوں کی ہمت کو سلام
تجھ پہ بسنے والے لوگوں کی محبت کو سلام
اہل دل، اہل نظر، اہل بصیرت کو سلام
تجھ سے رہ کر دور ہو جاتے ہیں ہم اندوہ گیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
مولد نصرت بھی تو ہے مسکن نصرت بھی تو
باعث عزت بھی تو ہے باعث شہرت بھی تو
وقت کی پہچان بھی تو، وقت کی دولت بھی تو
دل کو بہلاتے ہیں ہم کرکےتراذکر حسیں
شرقپور کی سرزمیں اے شرقپور کی سرزمیں
صاحبزادہ نصرت ںوشاہی صاحب