بسنت پنجاب (انڈیا اور پاکستان) میں موسم بہار میں منایا جانے والا پنگ بازی کا ایک تہوار ہے۔ یہ تہوار موسم بہار کے آغاز کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار زیادہ تر بارڈر کے دونوں جانب پنجاب کے علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ اور خصوصا امرتسر، گرداس پور، لاھور، قصور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں اس کو راویتی طریقوں اور جوش و جذبہ سے منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کو بسنت پنچمی، وسنت پنچمی یا سری پنچمی بھی کہا جاتا ہے۔ سنسکرت زبان میں وسنت کا مطلب بہار ہے اور پنجمی کا مطلب پانچواں دن۔ یعنی ایسا تہوار جو موسم بہار کے شروع ہوتے ہی پانچویں دن منایا جاتا ہے۔
بسنت میلہ ہندووں اور سکھوں کی سرسوتی دیوی جس کو یہ لوگ سری پنچمی یا سرسوتی پنچمی بھی کہتے ہیں اس کو خوش کرنے کے لیے مناتےہیں۔ اس لیے اس کی مناسبت سے اس میلہ کا نام بھی بسنت پنچمی رکھا گیا ہے۔ اور یہ ہندووں کے پنجابی کلینڈر کے مہینے ماگھ کے پانچویں روز منایا جاتا ہے۔ جو کہ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں آتا ہے۔ انڈیا میں اس تہوار کے موقع پر بسنت پنچمی اور سرسوتی پوجا کا انعقاد ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہندو دھرم کے مطابق سرسوتی دیوی حکمت، علم، زبان، موسیقی اور فن کی دیوی ہے۔ اور یہ دیوی برہما کی بیوی ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق برہما وہ خدا ہے جو پیدا کرتا ہے اور اس کے چار چہرے ہیں۔
بالی اور انڈونیشیا میں موجود ہندو اسے ہاری رائے سرسوتی (سرسوتی کا عظیم دن) کے نام سے جانتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ ان کے 120 دن لمبے بالینیز پاوکون کلینڈر کے آغاز کا دن بھی ہے۔
ہندو مصنف لوچھن سنگھ بخشی کے مطابق بسنت پنچمی ہندووں کا تہوار ہے جو کچھ انڈین مسلمان صوفیا کی جانب سے 12 صدی عیسوی میں عظیم صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کی دلی میں موجود قبر کی نشاندہی کے لیے منایا گیا اور تب سے یہ چشتی سلسلہ میں چلا آرہا ہے۔ انڈیا میں مقامی صوفی روایات کے مطابق شاعر حضرت امیر خسرو نے ایک ہندو عورت کو بسنت کے موقع پر پیلے لباس میں ملبوس پیلے پھول لیے کر جاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اس طریقے کو اپنا لیا اور تب سے یہ انڈیا میں سلسلہ چشتیہ میں چلا آرہا ہے۔
سکھ سلطنت کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انسویں صدی 1825 عیسوی میں بسنت میلہ کی باقاعدہ بنیاد رکھی اور گردواروں میں اس کو ایک سوشل ایونٹ یا میلہ کے طور پر منانے کی تلقین کی۔ اور اس کے لیے اس نے سب سے پہلے امرتسر میں موجود ہرمندریر مندر میں اس وقت کے 2000 روپے دیے تا کہ اس میلہ کے موقع پر لوگوں میں مفت کھانا تقسیم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اس کے دور میں اس میلہ کے موقع پر صوفیا کرام کے مزاروں پر میلوں کا انعقاد اور پنگ بازی کے سالانہ ایونٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ راجہ رنجیت سنگھ اور اس کی بیوی رانی موران بسنت والے دن پیلے رنگ کے کپڑے پہنتے اور پنگ بازی کرتے۔ اس طرح بسنت میلہ پر پنگ بازی پنجاب کا ایک پنجابی تہوار بن گیا جس کا مرکز لاھور تھا۔ درحقیقت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بسنت میلہ پر لاھور میں ایک دربار بھی منعقد کیا جو کہ دس دن تک جاری رہا جس میں فوجی پیلے رنگ کے کپڑے پہن کر تلواروں سے اپنی فوجی مہارت کے کرتب دکھاتے۔ اس تہوار کے موقع پر عورتیں مٹھائیاں بانڈھتی، جھولہ جھولتی، گانے گاتیں اور گھروں کو پیلے رنگ کے پھولوں سے سجاتیں۔ انڈیا میں ملوا پنجاب میں لوگ اجتماعی طور پر اکھٹے ہوتے ہیں اور پنگ بازی کرتے ہیں۔ انڈیا ہی میں بانساری اور گودی جو ضلع ڈھوری میں واقع ہیں ان کے بھگوان شوا کے مندر میں جو میلہ منعقد کیا جاتا ہے اس میلہ کے موقع پر پنگ بازی کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ میلے میں جھولے لگائے جاتے ہیں اور کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔
کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ مشترک ہے اس لیے یہ بسنت میلہ پاکستان میں بھی پاکستان بننے کے بعد سے حکومتی سرپرستی میں منایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں سے پنجاب حکومت کی جانب سے اس تہوار پر پابندی عائد کی دی گئی ہے۔ کیونکہ اس تہوار کے موقع پر پنگ بازی کے لیے جو ڈور استعمال کی جاتی ہے وہ بہت سی قیمتی جانیں لیے چکی ہے۔ 2014 میں روزنامہ نوائے وقت پاکستان میں ایک آرٹیکل چھپا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تہوار آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا اس لیے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کو منایا جائے۔
لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اس تہوار کو اس لیے تو بند کردیا گیا ہے کہ اس کے موقع پر کیمیکل سے بنی ڈور سے لوگوں کی جان جاتی ہے اور قوم اربوں روپے ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ مگر اس لیے بند نہیں کیا گیا کہ یہ ایک ہندووں کا تہوار ہے اور جو ہندو اور سکھ اپنے دیوی دیوتاوں کو خوش کرنے کے لیے مناتے ہیں اور ہم نے بحثیت مسلمان اس کو ایک کلچرل فیسٹیول اور جشن بہاراں کا نام دے کر اپنا لیا ہو ا ہے۔ اس موقع پر چھتوں پر چڑ کر ڈھول اور گانے اونچی آواز میں لگا کر جہاں نہ صرف بہت سی جانوں کے زیا اور اربوں روپے کے نقصان کیا جاتا ہے۔ وہاں لڑکیوں کو چھتوں پر چڑھا کر ان سے ڈانس کروا کر بغیرتی اور بے شرمی کو عام کیا جاتا ہے۔ اور یہ ساری چیزیں ہماری اسلامی روایات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کوئی جن لوگوں کی تلقید کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔
بلاگر: ملک عثمان - شرقپور ڈاٹ کام