حاجی ظہیر نیاز بیگی 1905 میں نیاز بیگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق جاٹ قوم کی گوندل گوت سے ہے۔۔ جو بڑی بہادر اور حق کا ساتھ دینے والی ہے۔ آپ نے بھی اس صفت کو زندگی بھر اپنا ئے رکھا، نہ صرف حق کا ساتھ دیا۔ بلکہ ملت اسلامیہ کے ایک ایک فرد کو اس راہ پر گامزن رکھنے کے لیے کام کیا۔ یہ 1917 کی بات ہے۔ حاجی ظہیر نیاز بیگی صرف بارہ سال کے تھے اور اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ میں ساتوین جماعت میں پڑھتے تھے۔ کہ سکول میں کوئی تقریب منعقد ہونے والی تھی اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حشیت سے آ رہے تھے۔ اساتذہ اور بچے اس تقریب کو زیادہ پروقار بنانے کے لیے پورے انہماک سے کام کررہے تھے۔ ظہیر نیاز بیگی ایک دبلا پتلا نوجوان بھی اپنی جسمانی قوت و حثیت سے زیادہ کام کررہا تھا۔ علامہ اقبال تشریف لائے تو رنگین جھنڈیاں ہلا ہلا کر ان کا استقبال کیا گیا۔ اقبال گزر رہے تھے اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاوار کی جارہی تھیں۔ اور علامہ اقبال زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ان نعرے لگانے والوں میں یہ نوجوان بھی شامل تھا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میں بچوں کو بہت زیادہ محنت کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ آپ کا مقابلہ جس قوم سے ہے وہ ہم سے ہبت آگئے نلکل گئی ہے۔ آپ کو ان تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گئی۔ ابھی آپ تقرر کر رہے تھے کہ ان سے نظم سنانے کی فرمائش کی گئی۔ اور آپ نے اپنی تقریر ختم کر کے بچوں کی نظم سنائی۔ یہ کلام اور پڑھنے کا انداز حاجی ظہیر نیاز بیگی کو اتنا پسند آیا کہ آپ نے فیصلہ کر لیا کے وہ بھی ایسی نظمیں لکھا کریں گے اور پڑھا کریں گئیں۔ اس فیصلے کے پیچھے نہ جانے کتنی قوت کام کر رہی تھی کہ جہاں بھی اقبال کے بارے میں سنا جاتاکہ آپ اپنا کلام سنائیں گئے حاجی ظہیر نیاز بیگی وہاں پہنچ جاتے۔ آپ اس کام میں اتنے منہک ہوئے کہ سکول سے غیر حاضریاں کرنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کا نام سکول سے کٹ گیا۔ پھر سکول سے ایسے نکلے کہ تعلیم ادھوری رہ گئی۔ پھر جب دوبارہ تعلیم کی طرف توجہ کی آپ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی بھی ختم کرنے والے تھے۔ یعنی لاھور میں قراردار پاکستان 1940 میں پاس کی گئی تو آپ اس وقت طبیہ کالج لاھور میں پڑھ رہے تھے۔ آپ کی تعلیم کا آخری سال تھا۔ امتحان ہونے والے تھے۔ قراردار لاھور والے جلسے سے تین چار روز قبل خاکساروں پر گولیاں برسا کر لاھور کی سڑکوں کو خون آلودہ کر دیا گیا پکڑ دھکڑ شروع ہوئی توحاجی صاحب سیدھے پیر ظفر حسین رئیس اعظم علاقہ کالر کے ہاں چلے گئے اور گرفتاری سے بچ گئے۔ اور مسلم لیگ کے سلانہ انتخابات ہوئے تو چودھری لال دین ،شیخ کرامت علی ایڈووکیٹ، ملک محمد انور ایڈووکیٹ اور عبدالغنی ایڈووکیٹ کے متفقہ فیصلہ کے بعد ظہیر نیاز بیگی کو بلایا گیااور ضلع شیخوپورہ کی مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔ آپ نے دن رات بڑی لگن سے کام کیا اور پورے ضلع بھر میں شہر شہر اور گاوں گاوں میں مسلم لیگ کی شاخیں قائم کیں۔ یہ اس محنت اور مسلم لیگ کے ساتھ وابستگی کا نتیجہ تھا کہ انہیں مقامی کارکن کی حثیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا ممبر بھی منتخب کر لیا گیا۔ اب آپ مسلم لیگ کے ہر جلسے میں شرکت کرنے لگے اور نظمیں پڑھنے لگے۔ یہ اعزاز انہیں حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی صدارت میں ہونے والے ہر جلسے میں نظم پڑھی ہے۔
آپ کو الہ آباد علی گڑھ، دہلی اور لاھور میں ہونے والے مسلم لیگ کے ان عظیم اور تاریخی اجلاس میں شمولیت کی خصوصی دعوت دی گئی، جو حضرت قائداعظم کی صدارت میں ہوئے تھے۔ آپ نے ان اجلاس میں اپنی ولولہ انگیز قومی اور ملی نظمیں پڑھیں اور عوام سے خوب داد پائی۔ ان نظموں میں حب الوطنی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا۔ آپ کے اس جذبہ کی قدر کرتے ہوئےقائداعظم نے آپ کو شاعر تحریک پاکستان کا خطاب دیا۔ 1945 میں انگریزی حکومت نے انہیں محض اس لئے قید وبند کی اذیتیں دینی شروع کر دیں کہ ان کی پاکستان کی خاطر تبلیغ واشاعت حکومت کی پالسیوں کے سراسر خلاف تھی۔
حاجی صاحب جب قائداعظم اور مسلم لیگ کا پیغام لے کر ہزاراہ سرحد اور آزاد قبائل میں پہنچے تو خدائی خدمت گاروں اور سرخ پوشوں نے آپ اور آپ کے ساتھیوں سے تصادم کرنے کی کوشش کی مگر اللہ نے کرم کیا اور سب جانیں محفوظ رہیں۔
لوگوں کی ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ ہوتی گئیں۔ چنانچہ 1946 کے انتخابات میں حاجی ظہیر نیاز بیگی صاحب کو پشاور اور آزاد قبائل کے عوام میں ایک ولولہ اور جذبہ پیدا کرنے کا کام سونپا گیا۔ آپ نے رات کے آرام کو خیر باد کہہ دیا اور ایک مشنری جذبہ کے ساتھ کام کیا۔ اس طرح اللہ تعالی کے خاص ٖفضل وکرم سے مسلم لیگ ان علاقوں میں بھی کامیاب ہوئی۔
آپ حج کرنا چاہتے تھے مگہ آپ کی بیمار والدہ کی طرف سے اجازت نہیں مل رہی تھی۔ 1947 میں آپ کو اجازت ملی تو آپ حج کے لئے چلے گئے اس دوران میں پاکستان بن گیا آٹھ مہنے بعد جب ظہیر نیاز بیگی واپس آئے تو آپ نے اس زمیں پر قدم رکھا جس کی خاطر وہ ایک مدت سے قائداعظم کا ساتھ دے رہے تھے۔ پاکستان کی فضاوں کے پر لطف جھونکوں نے ان کا استقبال کیا۔ ہندو بنیئے ہندوستان میں جا چلے تھے۔
مسلمان مہاجرین بن کر ہندوستان سے ادھر پاکستان میں قافلہ در قافلہ آرہے تھے۔ اس نو مولود ریاست کو دیگر بے پناہ مسائل کے ساتھ مہاجرین کی آباد کاری کا مسٗلہ بھی در پیش تھا۔ آپ نے اس کام میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
آپ نے مندرجہ زیل کتابیں تصنیف کی ہیں۔
مقصد حیات
برق وباراں
چراغ زندگی
آئینہ احوال
میرا دیس
آئینہ احوال سیاسی اور تبلیغی نظموں کا مجموعہ ہے۔
جس کا دیباچہ چودھری محمدعلی سابق وزیر اعظم پاکستان نے لکھا ہے۔ اور پرویز مہدی جالندھری نے کتاب میں حاجی صاحب کابھرپور تعارف کروایا ہے۔ میرا دیس ۔ جسے پنجابی ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل ہے اور اسی کتاب پر آپ کو سہگل فانڈیشن کی طرف سے ادبی انعام بھی ملا تھا۔ پاکستان بن گیا اور حضرت قائداعظم صرف ایک سال کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جن عمائدین نے ملک کی قیادت سنبھالی وہ اس راستے سے ہٹ گئے جس راستے کا انتخاب قائداعظم نے کیا تھا۔ یعنی پاکستان میں نفاذ اسلام ، نفاذ اسلام کی حمائت کرنے والوں اور حکمرانوں میں اختلافات رونما ہونے لگے۔ نواب ممدوٹ اور میاں ممتاز دولتانہ میں رسہ کشی کی وجہ اس قسم کے اختلاف بنی۔ چنانچہ چودھری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان نے ایک نہی سیاسی پارٹی تشکیل دی جس کا نام نظام اسلام پارٹی رکھا گیا۔ اب حاجی صاحب کی خدمات اس پارٹی کے لئےوقف ہو گئیں۔ اور آپ اس سے وابستہ ہو گئے۔
ملکی حالات دن بدن کروٹ بدلتے رہے اور آج تک وہ دن نہیں آیا کہ تحریک پاکستان کے دوران میں قیدوبند کی اذیتیں اور سختیاں برداشت کرنے والے پاکستان میں نظام اسلام کا لگا ہوا اور بڑھتا ہوا پودا دیکھ سکتے۔
آہستہ آہستہ محبت کے پیکر اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر کے منوں مٹی کے نیچے آباد ہو گئے۔ حٖضرت حاجی ظہیر نیاز بیگی اب بڑھاپے کی آخری سرحدوں میں داخل ہو گئے، وہ کئی حادثات کا بھی شکار ہوئے اور آخری وقت تک گھر میں اپنی چارپائی پر ایک محدود دنیا آباد کئے بیٹھے رہے۔ آپ یا ایک طرہ امتیاز تب سے آخری وقت تک یہ رہا کہ اچکن اور جناح کیپ کو اپنے جسم سے جدا نہیں کیا۔ اور یہی انے کے سچے پاکستانی ہونے کی علامت تھی۔
آپ کو اہل علم اور اہل قلم کی بڑی قدر تھی۔ اس کے لئے وہ مدت سے کوشش کرتے رہے کہ شرقپور شریف میں کوئی ادبی تنظیم قائم ہو جائے جس کی بساط پر ہر ہفتے عشرے کے بعد ادب سے لگاو رکھنے والے بیٹھ جایا کریں۔ کوئی شعر گنگنا لیا کرے کوئی افسانہ پیش کر دیا کرے۔ کوئی نقدوںظر اور طنزو مزاح کے حوالے سے بات کرے۔ مگر آج کی مصروف دنیا کے بسنے والے ان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے۔
انہیں حضرت علامہ نصرت نوشاہی، محمد انور قمر شرقپوری، قائد شرقپوری، فضل حق گلشن خان صاحب سے بڑی امیدیں تھیں مگی انہوں نے بھی انہیں مایوس کیا۔
جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب نے مندرجہ ذیل شخصیات
حاجی ظہیر نیاز بیگی
بیگم سلمیٰ تصدق حسین
میاں ممتاز دولتانہ
مولنا عبدالستار نیازی
سردار شوکت حیات
کو پہلا تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا تو ان پانچوں افراد کے گھروں میں پولیس نے پرچم کشائی کی اور سلامی دی۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرنے لے لیے گولڈ میڈل دینے کی تقریب الحمرا آرٹ کونسل لاھور میں منعقد کی گئی پھر سرکاری گاڑیوں میں بٹھا کر ان کو ان کے گھروں میں لایا گیا۔
مگر اف یہ تابندہ ستارہ 6 دسمبر 1998 کر رات 8 بجے موت کے گھنے بادلوں کی تہوں میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔ ان کی تدفین 7 دسمبر 1998 بروز منگل کر ہوئی۔