یہ وہ قبرستان ہے جس سے قدامت اور اولیت کا نام وابستہ ہے۔ ایک مدت سے اس کا نام عیدگاہ والا قبرستان ہے۔ مگر عید گاہ سے پہلے اس کو حافظ محمد اسحاق والا قبرستان، حافظ محمد جمال والا قبرستان یا قبرستان بابا گلاب شاہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔
اب دربار بابا گلاب شاہ اور قبرستان کے درمیان مکان حائل ہوگئے ہیں ورنہ ان مکانوں سے پہلے یہ قبرستان دور سے دکھائی دیتا تھا۔ قبرستان کے جنوبی جانب ایک کنواں ہے جیسے جسے حافظ محمد اسحاق نے 1178 ہجری میں بنوایا تھا۔ اس میں ایک کتبہ لگا ہوا تھا جس پر کندہ تھا۔ بانی چاہ فقیر حافظ محمد اسحاق۔ یہ کتبہ ڈاکٹر میاں مقصود احمد متولی دربار حافظ محمد اسحاق اور ان کے بھائی میاں منظور احمد کے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ دونوں بھائی حافظ محمد اسحاق کے خاندان میں سے ہیں۔
خسرہ نمبر 1457 کے مطابق اس قبرستان کا رقبہ 2 کنال 4 مرلہ ہے ۔ شرقپور شریف کے بانی لوگوں کی بہت سے قبریں یہاں موجود تھیں۔ مگر اب صرف 104 قبروں کے نشان موجود ہیں۔ قبروں کے درمیان حافظ محدم اسحاق کا مزار ہے ۔ لوح مزار پر بانی شرقپور لکھا گیا ہے۔ مزار کے شمالی جانب یعنی سرہانے کی طرف برآمدے میں حافظ محمد جمال کی قبر ہے ان کی اولادیں اب تک موجود ہیں وہ انہیں بانی شرقپور بھی کہتی ہیں۔ ان کی قبر پر بھی بانی شرقپور کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں مگر ان کی قبران کے اعزاز کے مطابق نہیں بنا سکے ہیں۔
قبرستان میں ون کے دو درخت ابھی تک موجود ہیں۔ ان دونوں کی عمر بھی انتی ہی ہے جتنی کہ اس قبرستان کی۔ اس قبرستان میں اس وقت زیادہ قبریں حافظ محمد اسحاق کے خاندان کی ہیں۔
قبرستان کے غربی جانب تھوڑے فاصلے پر لاھور جڑانوالہ روڈ واقع ہے۔ قبرستان کے چاروں طرف مکانات بن چکے ہیں۔ قبرستان میں آئیں تو بلندی اور پستی کا ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کی حقیقت پاجانے والے تہہ زمین میں خاموش لیٹے ہوئے ہیں۔ اے کاش قبروں کے اس قدر قریب ہو کر ہی ہم فلسفہ حیات و موت کی حقیقت کا پاسکتے۔