شرقپور شریف کی شمالی جانب 4 کلومیٹر کے فاصلے پر تقریبا (9000)نفوس پر مشتمل بھرپور آبادی والی ایک بستی ہے۔ جس کی آباد کاری شرقپور شریف سے بہت پہلے کی ہے۔ مگر اس وقت اس کا یہ نام نہ تھا جو اب ہے۔ اب اسے غازی پور کہتے ہیں۔
مغلیہ بادشاہ اکبر کے دور میں غازی پور کو پرگنہ کا درجہ حاصل تھا۔ پرگنہ تحصیل کے انتظامی علاقہ کے برابر ہوتا تھا۔ حافظ محمد جمال بانی شرقپور کی خریدی گئی زمینوں کے کاغذات میں غازی پور کو پرگنہ ہی لکھا گیا ہے۔
اندلس کے حاکم امیر عبدالرحمن الداخل نے جب 171ھ میں وفات پائی تو اس کا بیٹا ہشام بن عبد الرحمن الداخل جو ولی عہد تھا تخت پر بیٹھا اس کے بھائی عبداللہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن عبدالرحمن جو اس سے عمر میں بڑے تھے۔ اور اندلس کی امارت پر اپنا حق سمجھتے تھے نے خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ لہذا تینوں بھائی طلیطلہ کے میدان میں جنگ آزما ہوئے۔ ایک طرف ہشام بن عبدالرحمن کی سپاہ تھی اور دوسری طرف عبداللہ اور سلیمان کی۔ خوب خون ریزی ہوئی۔ عصر کے وقت سلیمان کی فوجیں دل چھوڑ گئیں۔ اور میدان سے بھاگ نکلیں۔
اس فوج کے کچھ دستے چھپتے چھپاتے اس جگہ پر آ کر خیمہ زن ہوئے جہاں اس وقت غازی پور آباد ہے۔ یہیں ایک بستی آباد کی۔ چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو غازی کہتے تھے لہذا انہوں نے اس بستی کو غازی پور کا نام دیا۔
پھر احمدشاہ ابدالی کے دور میں 1747ء تا 1773ء میں کوٹ کپورا سے چھ آدمی جو آپس میں تایا زاد اور چچا زاد تھے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ یہاں پہنچے۔ ان کے نام یہ تھے۔
محمود
مکیر
میدا
تاس
پنجو
سلطان
چونکہ ان کا مورث اعلی گھگ نامی ایک بہادر، ذی وقار اور صاحب عزت شخص تھا۔ اسکی مناسبت سے یہ لوگ گھگ جٹ کہلائے۔ ویسے بنیادی طور پر ڈھڈی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور راجہ کرن کی اولاد میں سے ہیں۔
یہ گاوں ہرے بھرے کھیتوں ، رنگین بہاروں والے باغوں اور جھومتے درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ پوری آبادی جٹ برادری کی ملکیت میں ہے۔ راجوں کی اولاد ہیں راج کر رہے ہیں۔
کبھی تو اس کی ساری آبادی کچی تھی مگر اب کوٹھی نما پختہ مکانوں کا جدید رنگ لیے ہوئے ہے۔ لوگوں میں جدید اور قدیم دونوں رنگ نظر آتے ہیں۔ عزت اور غیرت کی خاطر مر مٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معافی اور انتقام میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ مخالف کی رکاوٹ پر احتجاج کرنے کی بجائے اسے پاوں کی ٹھوکر پر رکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
ہر شخص چودھراہٹ کا علم لیے ہوئے ہے۔ دوسرے چودھری کے جھنڈے کے سائے تلے اکٹھے ہونا ناگوار لگتا ہے۔ اور اس میدان میں جو آگے بڑھنے کی کوشش کرے وہ گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں راجا گھگ، ریاض گھگ، اور شاہنا گھگ کی چودھراہٹیں انکی جان کی دشمن بن گئیں۔
آج کا نوجوان طبقہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہا ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام بھی کر رہے ہیں۔ اور محنت کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے آپ کو اپنی عزت اور زندگی کو امن کی راہ پر گامزن کر رہا ہے۔
غازی پور کا کل رقبہ 1885ء کے گزٹ کے مطابق 2168ایکڑ ہے۔ اورسارے کا سارا زیر کاشت ہے۔ ایک مرلہ زمین بھی خالی نظر نہیں آتی۔ یہ یہاں کے لوگوں کی کاشتکاری اور محنت کا واضح ثبوت ہے۔
اس وقت 1500 کی تعداد سے زیادہ مکان ہیں۔ دکانیں بہت تھوڑی ہیں۔ زیادہ لوگ شرقپور شریف سے سودا سلف خریدتے ہیں۔
پورا گاوں تین پتیوں (وراڈوں)میں منقسم ہے۔ جن کے نام یہ ہیں۔
پنوانی پتی
محمود کی پتی
میداتاس کی پتی
بلدیاتی انتخابات میں ہر پتی سے ایک ممبر منتخب ہوتا ہے۔ لوگ میلوں ٹھیلوں اور دیسی کھیلوں کے زیادہ شوقین ہیں۔ کبڈی اور کشتی سے خاصہ لگاو رکھتے ہیں۔
چند معززین دیہہ کے نام یہ ہیں۔
چوہدری فقیر علی ولد سوہنا
اللہ دتہ ولد صاحب دین
محمد عاشق ولد سلطان احمد
ڈاکٹر محمد انور ولد حاجی غلام محمد
ماسٹر صوفی محمد حنیف ولد علم دین
ماسٹر محمد رفیق ولد شاہ محمد
چودھری جمیل احمد ولد اکبر علی پٹواری
کرامت علی ولد جلال دین
حاجی فقیر محمد ملک ولد چراغ دین
محمد عاشق ولد بھاگ دین
حاجی جلال دین ولد حیات محمد اپنے دور کے بہت بڑے سخی تھے۔
غازی پور شرقپور شریف سے بذریعہ پختہ سڑک ملا ہوا ہے۔ تانگے عام چلتے ہیں۔ کچھ لوگون کی اپنی کاریں اس سڑک پر بھاگتی نظر آتی ہیں۔
لوگوں میں مذہبی رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ شریعت، نماز روزہ کے پابند ہیں۔ بوڑھے بابے ڈیرے کی زینت ہیں۔ اچھے مہمان نواز ہیں۔ حقہ پانی بڑے خلوص سے پوچھتے ہیں۔
بذریعہ معلومات: ماسٹر محمد رفیق ، صوفی محمد رفیق