دنیا کا کوئی باپ آپ سے زیادہ خوش بخت اور بلند اقبال نہیں ہے۔ آپ اس عظیم ہستی کے باپ ہیں جو باعث تکوین کائنات ہے۔ اولین و آخرین انبیا مرسلین اور ان کی امتیں جس کے فیض سے فیض یاب ہیں۔ جو شفیع المذنبین ہے۔ جو فلک نبوت ورسالت کا آفتاب عالم تاب ہے۔ جس کے طلوع ہونے کے بعد ہدایت کی روشنی اتنی فراواں ہو گئی کہ اس کے بعد کسی دوسرے نور ہدایت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ جس نے اپنی شبانہ روز محنت سے انسان کا ٹوٹا ہوا رشتہ اپنے رب سے جوڑ دیا۔ جس نے دل لوٹ لینے والی اپنی معصوم اداوں سے اور دل لبھانے والی اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت کا چراغ روشن کیا۔ جس نے اپنی نگاہ کرم سے جاں بلب انسانیت کو حیات جاوداں سے بہرور کیا۔ ایسی بے مثال و بے نظیر ہستی کے باپ کا نام عبداللہ ہے۔
آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے تھے۔ آپ کے والد نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس بیٹے عطا کئے اور سب جواں اور صحت مند ہوکر ان کی تقویت کا باعث بنے تو وہ ان میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کردیں گئے۔ جب سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ یا بیس سال ہوگئ تو انہیں اپنی نذر ایفا کرنے کا خیال آیا۔ آپ نے اپنے فرزندان کو اپنے پاس طلب کیا اور انہیں بتایا کہ انہوں نے جو نذرمانی تھی اس کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سب بیٹوں نے بڑی سعادت مندی کا اظہار کرتے ہوئے سرجھکادیئے۔ اور بصد ادب عرض کیا کہ اے ہمارے پدربزرگوار! آپ اپنی نذر پوری کیجیے ہم میں سے جس کو آپ قربانی کے لئے نامزد کریں گے وہ اس پر فخر کرے گا۔ اور اپنے سر کا نذرانہ بصد مسرت پیش کردے گا۔ طے یہ پایا کہ بیت اللہ شریف کے فال نکالنے والے سے فال نکلوائی جائے جس کے نام قرعہ نکلے اس کو بلاپس و پیش راہ خدا میں قربان کردیا جائے۔
سب مل کر بیت اللہ شریف کے پاس جعع ہوئے فال نکالنے والے کو بلایا گیا، صورت حال سے آگاہ کیا گیا وہ فال کے تیر نکال کر لیے آیا اور فال نکالنے کی تیاری کرنے لگا۔ کسی ایک بچے کے نام قرعہ ضرور نکلے گا۔ آپ کے سارے بچے شکل و صورت اور سیرت وکردار کے لحاظ سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھے۔ کسی ایک کے گلے پر چھری ضرور پھیری جائے گی لیکن عبدالمطلب پہاڑ کی چٹان بنے کھڑے ہیں۔ ان کے ارادے میں کسی لچک کی دور دور تک نشان نہیں۔ اپنے رب سے انہوں نے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہر قیمت پر پورا کریں گے۔ اپنے اس پختہ عزم کا اظہار وہ اس رجز سے کررہے ہیں۔
"میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے اور میں اپنے عہد کو پورا کروں گا۔ بخدا کسی چیز کی ایسی حمد نہیں کی جاتی جس طرح اللہ تعالیٰ کی حمد کی جاتی ہے۔ جب وہ میرا مولا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اور اس کے لئے میں نے نذر مانی ہے میں اس بات کی پسند نہیں کرتا کہ اس نذر کو مسترد کردوں۔ پھر مجھے زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔"
فال نکالنے والے نے فال نکالی، قرعہ فال حضرت عبداللہ کے نام نکلا۔ یہ درست ہے کہ عبداللہ بہت حسین ہیں بوڑھے باپ کے یہ سب سے چھوٹے بیٹے ہیں اور سب بھائیوں سے زیادہ وہ انہیں محبوب ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ عبدالمطلب اور ان کے خدا کا ہے۔ اس میں کوئی پیاری سے پیاری چیز بھی حائل نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کے خالق نے قربانی کے لئے عبداللہ کو پسند فرمایا ہے تو عبداللہ کو اس کی رضا کے لئے ضرور قربان کیا جائے گا۔ چھری لائی جاتی ہے عبداللہ کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے کے لئے حضرت عبدالمطلب آستینیں چڑھارہے ہیں۔ اس کی اطلاع بجلی کی سرعت کے ساتھ مکہ کے ہر گھر میں گونجنے لگتی ہے۔ قریش کے روسا یہ سن کر اپنی مجلسوں سے دوڑے چلے آتے ہیں۔ مکہ کے ہر فرد پر سناٹا طاری ہے۔ مکہ کے سردار کہتے ہیں اے عبدالمطلب! ایسا ہرگز نہیں ہوگا چاند سے زیادہ من موہنے چہرے والا، پھول سے زیادہ نازک بدن والا عبداللہ ان کے سامنے ذبح کردیا جائے۔ وہ ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔ عبدالمطلب فرماتے ہیں یہ میرا اور میرے پروردگار کا معاملہ ہے اس میں داخل دینے والے تم کون ہوتے ہو۔ بوڑھے باپ کے عزم کو دیکھ کر سارے سردار منت سماجت پر اتر آتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے سردار! اگر بیٹوں کو ذبح کرنے کی رسم کا آغاز تمہاری جیسی ہستی نے کردیا تو پھر اس رسم کو بند کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں رہے گا اپنی قوم کے نونہالوں پر رحم کرو۔ اس کے نتائج بڑے ہولناک ہوں گے۔ طویل کشمکش کے بعد یہ طے پایا کہ حجاز کی عرافہ (علامہ ابن اثیر نے الحجر کی کاہنہ کے پاس جانے کا ذکر کیا ہے۔ جلد دوم صفحہ 6-7) کے پاس جاتے ہیں۔ وہ جو فیصلہ کرے اس کو وہ سب تسلیم کریں گے۔ چنانچہ سب مل کر یثرب (مدینہ شریف کا پرانا نام) پہنچتے ہیں۔ وہاں اس عرافہ کے بارے میں دریافت کرتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ خیبر میں سکونت پذیر ہے وہاں جاتے ہیں اس کو اپنے آنے کا مقصد سے آگاہ کرتے ہیں وہ کہتی ہے مجھے ایک دن کی مہلت دو میرا "تابعی" آئے گا میں اس سے پوچھ کر بتاوں گی۔ دوسرے روز پھر اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ میرا تابعی آیا تھا میں نے اس سے آپ کے سوال کے بارے میں پوچھا تھا اس نے اس کا حل مجھے یہ بتایا ہے کہ پہلے تم مجھے یہ بتاو کہ تمہارے ہاں مقتول کی دیت کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ دس اونٹ اس نے کہا کہ تم اپنے وطن واپس چلے جاو ایک طرف دس اونٹ کھڑے کردینا اور دوسری طرف عبداللہ۔ پھر فال نکالنا۔ اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا تو ان کو ذبح کردینا تمہاری نذر ادا ہو جائے گی اور اگر قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا تو پھر دس دس اونٹ بڑھاتے جانا اور قرعہ نکالتے جانا یہاں تک کہ قرعہ عبداللہ کی بجائے اونٹوں کے نام نکلے جتنے اونٹ پرقرعہ نکلے ان کو ذبح کردینا یوں تمہاری نذر پوری ہو جائے گی۔
سارا کارواں عرافہ کے اس فیصلہ کو سن کر مکہ واپس آ گیا اور اس کے کہنے کے مطابق قرعہ اندازی شروع کردی۔دس اونٹوں پر قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا۔ تو دس اونٹ بڑھا دیے گئے مگر پھر قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا اس طرح دس دس اونٹ بڑھتے گئے بات سو اونٹوں پر جا پہنچی۔ حضرت عبدالمطلب کو بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بار اونٹوں کے نام قرعہ نکلا تو تسلیم کروں گا ورنہ نہیں۔ عالم انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا چانچہ وہ سو اونٹ ذبح کردیئے گئے اور اذن عام دے دیا گیا کہ ان کے گوشت کو جو چاہے جتنا چاہے لے جائے کسی کو نہ روکا جائے گا۔ یہاں تک کہ کسی گوشت خور پرندے اور درندے کو بھی ان کا گوشت کھانے سے منع نہ کیا جائے۔ حضرت عبدالمطلب جب نذر ایفا کرنے کی آزمائش سے کامیابی سے گزر گئے اور سو اونٹوں کے عوض حضرت عبداللہ کی جان بچ گئی تو ان کی مسرت وشادمانی کا اندازہ لگانا ہمارے لئے ممکن نہیں اب انہیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اپنے جواں بخت اور جواں سال بچے کی شادی کی خوشی منائیں ایسی دلہن بیاہ کر لائیں کہ جو اپنے دلہا کی طرح خصائل و شمائل میں اپنی نظیر نہ رکھتی ہو۔ آپ کی حقیقت شناس نگاہ نے قریش کے بنو زہرہ خاندان کے سردار دھب بن عبدمناف بن زہرہ کی نور نظر حور شمائل لخت جگر "آمنہ" کا انتخاب کیا آپ وھب کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی بچی آمنہ کا رشتہ ان کے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ لے لئے دیں۔ وھب نے جب دیکھا کہ بنو ہاشم کے سردار عبدالمطلب نے ان کے گھر قدم رنجہ فرمایا ہے اور اپنے لخت جگر کے لئے ان کی نور نظر کا رشتہ طلب کرنے کے لئے آئیں ہیں۔ تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور انہوں نے بنو ہاشم کے سردار کی اس خواہش کو بسروچشم قبول کر لیا۔ حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ بیس سال تھی۔ عنفوان شباب کا عالم، اس پر تقوی و پارسائی کے انوار کا ہجوم۔ آپ کا حسن و جمال حشر سامان تھا۔ آپ جس گلی سے گزرتے سینکڑوں دل سینوں میں مچلنے لگتے صدہا نرگسیں آنکھیں قدموں میں بچھ جانے کے لئے بے چین ہو جاتیں۔ علما سیرت لکھتے ہیں۔
"یعنی حضرت عبداللہ کو اپنے زمانہ میں عورتوں کی طرف سے وہی مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا جو حضرت یوسف علیہ اسلام کو اپنے زمانہ میں عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے پیش آئے۔" (السیرۃ النبویہ)
اس سلسلے میں مواھب الدنیہ کے شارحین کا ایک اور جملہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
"حضرت عبداللہ قریش میں ایک تابندہ نور تھے اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے قریش کی عورتیں ان کے دام محبت میں اسیر تھیں اور قریب تھا کہ وہ ان کی محبت میں ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔"
لیکن حضرت عبداللہ کی شرمگیں نگاہیں جھکی ہی رہتیں روئے زیبا پر شرم و حیا، شرافت کے انوار برستے ہی رہتے۔ اور اس کو مزید دلکش اور دل آویز بناتے رہتے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یوسف علیہ اسلام اور زلیخا کا عہد رفتہ پھر لوٹ آیا ہے۔ مکہ کی کئی دوشیزاوں کے ہاتھ سے صبر و احتیاط کا دامن بار بار چھوٹ جاتا تھا۔ بعض نے تو اپنے جان سوز شوق کی بیتابیوں سے بے بس ہو کر اپنے حسن و شباب کی جملہ رعنائیوں کی ان کے قدموں کی خاک پر قربان کردینے کا برملا اظہار بھی کردیا تھا۔ مزید برآں سو اونٹ کا نذرانہ پیش کرنے کی جسارت بھی کی تھی تا کہ ان سو اونٹوں کا معاوضہ ہوسکے جو ان کی جان بچانے کے لئے قربانی دیئے گئے تھے۔ بایں ہمہ حضرت عبداللہ کا چہرہ جس نور مبین کی کرنوں کی جلوہ گاہ بنا ہوا تھا وہ انہیں کب کسی کی طرف نگاہ اٹھانے کی اجازت دیتا تھا۔ آپ نے ہر بار بڑی بے نیازی سے اور حقارت سے ایسی تمام پیش کشوں کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا۔
"رہا حرام تو اس سے موت بہتر ہے۔
اور حلال تو میں اس میں حلال واضع طور پر نہیں دیکھ رہا۔
"میں ایسی بات کو کیسے قبول کرسکتا ہوں جو تم چاہتی ہو۔
کریم ہمیشہ اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے دین کی۔"
وھب نے حضرت عبدالمطلب کی خواہش کے مطابق حضرت آمنہ کا رشتہ حضرت عبداللہ کو دینا منظور کر لیا پھر جلد ہی تقریب نکاح انجام پذیر ہوئی اور آپ اپنے عظیم القدر سسر کے زیر سایہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں۔
حضرت عبدالمطلب کا پیشہ تجارت تھا۔ آپ کی کوششوں کے طفیل مکہ کے تجارتی کاروانوں کو شام، فلسطین وغیرہ ممالک میں آمدورفت کی اجازت ملی تھی چنانچہ حضرت عبدالمطلب کے تجارتی سامان سے لدے ہوئے اونٹ ان ممالک میں آیا جایا کرتے تھے شادی کے کچھ عرصے بعد حضرت عبداللہ کو اپنے پدر بزرگوار کے ایک تجارتی قافلہ کی نگرانی کرنے اور کاروباری ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے ملک شام جانا پڑا۔ تجارتی مصروفیتوں سے فراغت پانے کے بعد جب وہ اپنے ساتھیوں کی معیت میں مکہ واپس آنے کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں بیمار ہوگئے۔ قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اس لئے وہ اپنے ننہال میں رک گئے تا کہ طبیعت سنبھلے تو سفر شروع کریں۔ دوسرے ساتھی واپس لوٹ آئے آپ ایک ماہ وہاں بیمار رہنے کے بعد واصل بحق ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعوں۔
ان کی اچانک وفات سے سب کو صدمہ ہوا ہو گا اور شدید صدمہ ہوا ہو گا۔ لیکن حضرت آمنہ کے دل پر جو قیامت ٹوٹی اس کا بس وہی اندازہ لگا سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے عظیم خاوند کے اچانک انتقال پر ایک قصیدہ کہا اس کے چند اشعار آپ بھی پڑھیں تا کہ حضرت آمنہ کے دل دردمند کے احساسات کا آپ کو اندازہ ہوسکے۔
"بطحا وادی کے کنارے نے ہاشم کے بیٹے کو موت کی نیند سلادیا وہ مختلف پردوں میں لپٹا ہوا مکہ سے باہر لحد کا پڑوسی بن گیا۔
موتوں نے اسے چانک دعوت دی جسے اس نے قبول کرلیا اور موت نے لوگوں میں ہاشم کے اس بیٹے کا کوئی مثیل باقی نہیں چھوڑا۔
عشا کے وقت جب اس کے دوست اس کی چارپائی کو اٹھا کر لے جارہے تھے تو وہ انبوہ کی وجہ سے باری باری کندھا بدل رہے تھے۔
اگرچہ موت اور اس کی مشکلات نے اس کو جھپٹ لیا ہے لیکن وہ درحقیقت بہت سخی اور بہت رحم کرنے والا تھا۔" (السیرۃ نبویہ جلد اول، صفحہ 44)
حبیب کبریا علیہ اسلام اجمل التحیتہ الثنا ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا ظل عاطفت سر سے اٹھا لیا گیا۔ اور آپ یتیم ہوکر رہ گئے علامہ احمد بن زینی دحلان رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السیرۃ النبویہ میں لکھتے ہیں۔
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائی تو فرشتوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی اے ہمارے الہ! اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہو گیا اس کا باپ نہ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ ہم اس کے حافظ اور مددگار ہیں دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں اس کا دوست ہوں، نگہبان ہوں، مددگار ہوں، پروردگار ہوں، اس کی مدد کرنے والا ہوں اس کو رزق دینے والا ہوں اور ہر بات میں اس کے لئے کافی ہوں۔ پس تم اس پر درود پڑھا کرو اور اس کے نام سے برکت حاصل کیا کرو۔"
علامہ مذکور اسی مقام پر لکھتے ہیں۔
"حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیم پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی آپ نے فرمایا اس کی متعدد حکمتیں ہیں ان میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ تا کہ مخلوق کا حق آپ پر نہ رہے۔ یعنی وہ حقوق جو بالغ ہونے کے بعد کسی پران کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی اس وقت انتقال کیا جب حضور کی عمر صرف چھ سال تھی۔ نیز یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ معزز وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ عزت عطا فرمائے۔ نیز آپ کی قوت آپ کے آباواجداد اور ماوں کے ذریعہ سے نہیں اور نہ مال کے ذریعہ سے بلکہ آپ کی قوت وطاقت کا راز اللہ تعالی کی نصرت ہے۔ اور اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ حضور کو جب یتیمی کی تکلیفوں کا ذاتی تجربہ ہوگا تو حضور فقیروں اور یتیموں پر رحم فرمائیں گے۔"
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں ذبحین کا بیٹا ہوں ایک حضرت اسماعیل علیہ اسلام اور دوسرے میرے باپ حضرت عبداللہ
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین پر اپنی رحمتوں کا نزول جاری رکھیں اور ان کو کروٹ کروٹ ان کی قبروں میں راحت نصیب فرمائیں۔ آمین۔