حضرت میاں شیر محمد رحمة الله علية دل کے رازوں سے واقف ہیں- یہ قصہ ہم اکثر اپنے دادا جان میاں شیر محمد مرحوم سے سنا کرتے تهے اور بعد میں والد محترم حاجی محمد الیاس شرقپوری بهی من و عن اس قصہ کو بیان کیا کرتے اور ہمارے پردادا میاں الله بخش کے اس تاثر کے پختہ ہونے کا واقع کچهہ یوں فرماتے کہ- ایک دفعہ حکیم کمال الدین- حکیم عنایت الله- حافظ غلام محی الدین اور ہمارے پردادا میاں الله بخش کسی محفل میں بیٹهے ہوئے تهے- اثنائے گفتگو حضرت میاں صاحب کے بارے میں بات ہونے لگی- کہ وہ محض ایک شریف النفس شخصیت ہیں دینی علوم سے ناواقف ہیں اور ولائت سے کوسوں دور ہیں- میاں الله بخش نے کہیں ان حضرات کی ہاں میں ہاں ملا دی ہو گی- اپنی طرف سے کوئی زاید بات نہیں کی- اور محفل برخواست ہوگئی-
اتفاق سے اگلے ہی روز میاں الله بخش- حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے- کچهہ اور بیلی یار بهی بیٹهے ہوئے تهے- حضرت صاحب نے ان بیلی یاروں سے فرمايا- بد گمانی اچهی بات نہیں ہوتی اگر کسی میں حق بات کہنے کی ہمت نہ ہو تو بد گمانی کرنے والوں کی ہاں میں ہاں نہ ملاو- بلکہ جس کے بارے اس کی شان کے خلاف بات سنو اس کی تصدیق اور تحقیق خود کرو-
میاں الله بخش فورا سمجهہ گئے کہ یہ بات میرے حال کے پیش نظر فرمائی جا رہی ہے- اب میاں الله بخش کو ایسے ایسے مشاہدات نصیب ہوئے- جن پر کشف کا گمان ہوتا تها- 1926 ء میں جب حضرت میاں صاحب والی مسجد بن رہی تهی تو لاہور سے کسی نے شہتیر بالے بهیجے- مگر حضرت میاں شیر محمد علية رحمة نے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ ہم الله کے گهر میں کافر کا مال نہیں لگائیں گے- اس موقعہ پر کچهہ اور لوگوں نے نقدی اور تعمیراتی سامان دینے کی پیشکش کی- آپ نے یہ کہہ کر ٹهکرا دی کہ ہم چاہتے ہیں الله کے گهر میں مال طیب صرف ہونا چاہیے- بعض لوگوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ واقعی شہتیر بالے ایک ہندو نے بهیجے تهے- نقدی اور تعمیراتی سامان کی پیشکش کرنے والے رشوت اور سود لینے والے تهے-اور جوا کهیلنے والے تهے- میاں الله بخش پر جب یہ باتیں عیاں ہوئیں تو آپ نے ہر اس محفل سے اجتناب کیا جہاں حضرت میاں صاحب کی مخالفت میں باتیں کرنے والے بیٹهے ہوں-
میاں الله بخش 1922 ء میں ریٹائر ہوئے اور عزت و ابرو کے ساتهہ گهر آئے-
آپ کا میاں صاحب رحمة کی خدمت میں آنا جانا رہتا- ایک بار میاں صاحب کو ضیافت کے لئے دعوت آئی اور اتفاق سے دعوت دینے والے میاں الله بخش کے احباب تهے- دعوت پر جانے سے قبل میاں الله بخش حضرت میاں صاحب کی خدمت میں آئے تا کہ دونوں اکٹهے وہاں جا سکیں- مگر حضرت صاحب اس محفل میں نہیں گئے- صرف اتنا فرمایا- کہ مجهے کهانے کی بالکل گنجائش نہیں ہے- میں کهانا کها چکا ہوں- کیا خبر اب مزید کوئی لقمہ میرے پیٹ کی تکلیف کا باعث بنے- خیر میاں الله بخش دعوت پر پہنچے- وہاں انواع و اقسام کے کهانے تهے- میاں الله بخش نے حسب منشا کهانا تناول کیا اورگهر آئے- اب آپ کی طبیعت خراب ہونے لگی- هلکا هلکا پیٹ درد ہونے لگا- پهر درد شدت اختیار کر گیا- کچهہ قے و موشن شروع ہو گئے- تین چار الٹیاں آنے کے بعد طبیعت کچهہ سنبهلی- مگر چونکہ کمزوری ہو گئی تهی لہذا صبح کی نماز گهر پر ہی پڑهی- اشراق کی نماز پڑهنے کے بعد حضرت میاں صاحب خیریت دریافت کرنے گهر تشریف لائے اور پوچها الله بخشا اج مسیتے کیوں نہیں آیا- عرض کیا حضور پیٹ میں گڑ بڑ تهی- فرمایا دعوت میں تهوڑا کهانا تها- مزید فرمایا بیگانے کهانوں پر بد پرہیزی ہو جاتی ہے- آئندہ احتیاط کرنا-
میاں صاحب چلے گئے مگر الله بخش سوچنے لگے- کہ حضرت میاں صاحب کی پہلے والی اور آج کی باتوں کی تہہ میں کوئی اور بات پوشیدہ ہے- اصل بات کو آپ نے مخفی رکها ہے-جب میاں الله بخش نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ دعوت کرنے والے کا بیٹا جج تها- اور رشوت لیتا تها- اس لئے ان کا یہ کهانا پیٹ میں خرابی کا باعث بنے والا ہی تها- یہ تهے حضرت میاں شیر محمد رحمة الله علية کے ایک جید ولی الله ہونے کے اثبات جن سے ان کے دوست اور ہمارے پردادا جان میاں الله بخش گرداور براہ راست- ان کی زندگی میں فیض یاب ہوئے-
میاں الله بخش نے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی معاشرتی زندگی بهر پور انداز میں گزاری- اچهے لوگوں سے میل ملاقات رکهی- زمینوں کے قوانین کو شاید ہی کوئی ان سے زیادہ جانتا ہو گا- آپ نے اس سلسلے میں اپنے علاقے کے اور دوسری تحصیلوں کی لوگوں کے دیرینا مسائل حل کروائے- اس وقت بابو گنپت رام لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آئے تهے اور ہمارے علاقے میں بیرسٹر تعین ہوئے- وہ ہمیشہ زمینوں کے قوانین میاں الله بخش سے ہی پوچها کرتے تهے-
میاں الله بخش گرداور نے 1951 ء میں وفات پائی- اور حضرت میاں صاحب کے دربار سے ملحقہ قبرستان میں دفن ہوئے-
بذریعہ معلومات حاجی محمد الیاس شرقپوری مرحوم