صائمہ کنول اور حقوقِ نسواں اوربے وقار صحافت

22/10/2016  (8 سال پہلے)   1972    کیٹیگری : مرد و خواتین    قلم کار : توقیر اسلم
تہذیبِ نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر جو اس ******کا حلیہ بگاڑ دے پاکستان میں ایک نیا کلچر انٹروڈیوس ہو رہا ہے کہ عورت اگر کسی بھی مرد کی پگڑی اچھالتی رہے تو اسے حقوق نسواں کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مرد اپنی عزت بچانے کیلئے کچھ کرتا ہے تو وہ نامرد اور پتہ نہیں کیا کیا کہلاتا ہے ۔ اس عورت کی مکمل ویڈیو دیکھ چکا ہوں. ڈیوٹی پر موجود سپاہی ایک منظم ادارے کا جوان ہے جس کے پیچھے سنیرُ اہل کاربھی موجود ہیں. گارڈ کےغلط ہونے پر مطلقع حکام بالا سے رجوع کیا جا سکتا تھا. لیکن اس عورت کے نازیبہ الفاظ اس کی ماں بہنوں کی ذاتی تزلیل ناقابل برداشت اور اشتیال انگیز تھے. شرم آنی چاہیئے ایسی خواتین کو جو عورت کے نام پر بد نماء داغ ہیں ہر چیز کی حد ہوتی ہیں تھپڑ مارنے والی ویڈیو دیکھی بار بار دیکھی سیکیورٹی گارڈ نے انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک منٹ کی اس ویڈیو میں 57 سیکنڈ خاتون اینکر کی غلطی تھی اور 3 سیکنڈ سیکیورٹی گارڈ کی اور بلاشبہ پہلے 57 سیکنڈ ہی آخری 3 سیکنڈ کی غلطی کی وجہ بنے ہیں....... خاتون اینکر کا جارحانہ، بدتمیزانہ بلکہ بدمعاشانہ رویہ نہ ہوتا تو تھپڑ کی نوبت کبھی نہ آتی صحافت ایک ذمہ داری کا نام ہے کیمرہ مائیک یا قلم کے زور پر دوسروں کے گریبانوں پر ھاتھ ڈالنے کا نہیں سیکیورٹی گارڈ نے اگر اپنے فرائض سے غفلت برتی ہے تو خاتون صحافی نے بھی اپنے فرائض سے سو فی صد تجاوز/انحراف کیا ہے... سزا گارڈ کو ملنی چاہئے تو سزا خاتون صحافی کو بھی ضرور ملنی چاہئے مرد کے برابر حقوق۔۔۔ میڈم برابری میں تھپڑ کی برداشت بھی ہونی چاہیے پھر، مرد کی برابری مغرب کو دیکھ کے اور تھپڑ کھانے کے بعد واویلہ کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔ ویسے تین تھپڑ لازم مارنے تھے۔۔۔۔۔ اس ملک کےآئین اورقانون میں مردکےساتھ زبردستی کرنےوالی عورت کی کوئی سزانہیں؟ سارےبغیرت حقوق نسواں کےعلمبردار ہیں جتنی عزت عورت کو اسلام نےدی دنیاکےمذاھب نےنہی دی جب بچیوں کو زندہ درگورکیاجاتاتھا۔ اس دورمیں ہمارےنبی صل الللہ علیہ وسلم نےاپنی تواپنی دشمن کی بچی کاسر بھی اپنی مبارک چادرسےڈھانپ کراسکی عظمت کوچارچاند لگاۓآج ان خبیثوں نےہہود اورنصاری کی پیروی کرتے ہوۓحقوق نسواں کےنام پر اپنی بہنوں بیٹیوں کوآدھ ننگاکرکےگلی بازاروں اورٹی وی کی زینت بنا دیا۔
نیوزرپورٹر تھپٹر کھانے والی خاتون صحافی سے تمام تر ہمدردیوں کے باوجود یہ سچ ہےکہ اس رپورٹنگ میں وہ بطور صحافی کہیں نظر نہیں آئیں۔ برا نہ مانیں تو کہوں کہ ہمارے کئی صحافیوں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے لیکن جہاں تنخوایں ہی تاخیر سے ملتی ہوں وہاں تربیت پر کون دھیان دیے گا؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ جیسے عامیانہ جملے اور گفتگو نہ کرنے والے کا بار بار راستہ روک کر اس کے سامنے بدمعاشوں کی طرح کھڑے ہوکر ذاتی حملے صحافیوں کے شایان شان نہیں ہیں۔ کسی کا بازو کھینچ کر اس کو موقف دینے پر مجبو کرنا صحافتی ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے ۔ خاتون یہ حق رکھتی تھیں کہ گفتگو نہ کرنے پر رپورٹ کرتیں کہ فلاں گارڈ نے ہم سے گفتگو کرنے یا اپنا موقف دینے سے انکار کردیا۔ جس طرح جدید کیمرہ اٹھا لینے ہر شخص کیمرہ مین نہیں بن جاتا اسی طرح مائیک تھام لینے سے انسان رپورٹر نہیں بن جاتا۔ خاتوں لبرل ہوں گی کہ ان کے نزدیک کسی مرد کا بازہ تھامنا معیوب نہیں لیکن ممکن لے وہ گارڈ اتنا لبرل نہ ہو کہ کسی بھی خاتون کو اپنے جسم پر ہاتھ لگانے کی اجازت دے دیتا۔ ہمارے گھر کی خواتین کا کوئی بازو تھامے تو شاید ہم اسے جان سے مارنے کی کوشش کریں تو کیا یہی کلیہ ان خاتون اور گارڈ پر لاگو نہیں ہوتا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کا کلچر اور تہذیب ہمارے رپورٹنگ کا حصہ ہوتی ہے اور صحافتی اقدار ہمارا سرمایا ہے ۔ ہم ان اقدار کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ ہم صحافی ہیں بدمعاش نہٰں۔ یاد آتا ہے پشاور میں ایک بم دھماکے کے بعد ایک خاتون رپورٹر نے ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر ایک سٹریچر کو زبردستی روک کر زخمی کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو ہمارے ایک سینئر صحافی نے خاتون کو تھپڑ رسید کر کے سٹریچر کو ایمرجنسی کی جانب دھکیل دیا تھا اور غصہ سے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تھا تمہارے ایک پیکچ کے چکر میں یہ شخص مرجاتا تو ذمہ دار کون ہوتا؟ اسی طرح اس بم دھماکے میں شہید ہونے والے ایک نوجوان کی مان نے ہم صحافیوں کو جو تھپڑ رسید کیا تھا اس کا نشان آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ ایک رپورٹر نے بیٹے کی میت کے سامنے بین کرتی ماں کے سامنے مائیک کرتے ہوئے کہا۔ ظالموں نے آپ کا بیٹا چھین لیا آپ کے کیا جذبات ہیں۔ کیسا محسوس کررہی ہیں۔ اس ماں نے غصہ سے کہا کاش تمہارا بیٹا اسی طرح مرا ہوتا تو سوال کرتی اب کیسا محسوس کررہے ہو۔ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے ایک بچے کی مان نے بھی یونہی تھپڑ رسید کیا تھا۔ ان سے رپورٹر نے کہا آپ کو اپنے بچے کی شہادت پر فخر ہوگا؟ ماں کہنے لگی میں نے بچہ میدان جنگ میں نہیں بھیجا تھا۔ اسے سکول پڑھنے بھیجا تھا۔ ہمارے غم کا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے۔ جذبات، کلچر اور احساسات سے عاری اس صحافت نے ہی ہمیں بدنام کیا ہے۔ ریٹنگ ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ تہذیب اور اقدار کے ساتھ کی گئی رپورٹنگ افضل ہے اور سچ کہوں تو ہم سب کو تربیت کی ضرورت ہے۔ یہاں باوقار رپورٹنگ کی اکیڈیمیز اور شارٹ کورسسز کا رحجان پیدا کرنا ضروری ہے۔ 
توقیر اسلم
TouqeerSahib1@gmail.com
 
Video URL
https://www.youtube.com/watch?v=E1Vi58h0rNI

 

سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا اپنے کمنٹ پوسٹ کریں

اس قلم کار کے پوسٹ کیے ہوئے دوسرے بلاگز / کالمز
کلمہ پڑھا ہوا ہے !!
18/03/2017  (7 سال پہلے)   1880
کیٹیگری : مذہب    قلم کار : توقیر اسلم

ایک فکر انگیز تحریر
19/10/2016  (8 سال پہلے)   1492
کیٹیگری : تحریر    قلم کار : توقیر اسلم

اپنا بلاگ / کالم پوسٹ کریں

اسی کیٹیگری میں دوسرے بلاگز / کالمز


اپنے اشتہارات دینے کیلے رابطہ کریں