ایم کیو ایم اور پی ایس پی یا پھر دونوں کے معماران میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے صدر مصطفی کمال کی چھ ماہ سے مشاورت کے نتیجہ میں مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی خواہش اور ارمان دلوں میں رہ گئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے کل شام نوبجے ایک دھواں دار اور پر ہجوم پریس کانفرنس میں کیے گئے اعلانات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایم کیو ایم تھی ،ہے اور رہے گی ایم کیو ایم اپنے نشان اور نام سے انتخابات لڑے گی، جس سے فاروق ستار ناراض ہوگئے ہیں اور ابھی ابھی پریس کانفرنس کرکے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کردیا۔ ادھر پاک سرزمین پارٹی بھی سوچ بچار کرنے کی باتیں کر رہی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی اپنے قیام کے انتہائی قلیل عرصے بعد ہی اپنا وجود تک ختم کردینے پر مجبور ہوگئی، ایم کیو ایم پاکستان بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوئی ہے ا س نے تو 22اگست 2017 کو بانی ایم کیو ایم سے راہیں جد ا کی تھیں لیکن اکیلے بطور جماعت سال بھی نہ چل سکی ۔ میں تو خیر حقیر سا بندہ ہوں یہاں بڑے بڑے طور مار خان قسم کے تجزیہ نگار،جن کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کا علم رکھتے ہیں جو کچھ وقوع پزیر ہونا ہوتا وہ اس سے باخبر ہوتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت دوبئی میں پکڑے جانے والے حماد صدیقی کے انکشافات سے خوف زدہ ہیں اور پی ایس پی یعنی مصطفی کمال اور ان کے رفقائے کار لیاقت آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے جلسہ میں مہاجر عوام کی جم غفیر دیکھ کر اپنی جماعت کی زندگی سے بیزار اور مایوس ہوئے سو دونوں نے اپنے اپنے وجود کو بچانے کے لیے ہاں کردی۔
ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے راہنماؤں کے اس موقف کو صحیح تسلیم کرلیا جائے کہ پس پردہ مکالمہ کئی مہینوں سے جاری تھا تو اس سوال کا جواب کون دیگا کہ پھر ارشد وہرا کی وکٹ گرانے کی کیا ضرورت تھی جب آپ نے دو تین دنوں بعد ہی ایک دوسرے سے’’ جھپی‘‘ ڈالنی تھی؟ اور اس وقت یہ دعوی کرنا کہ ابھی اور وکٹیں گریں گی۔ اور فاروق ستار کا یہ کہنا کہ’’ انیس قائم خانی بھائی ارشد وہرا بھائی کا خیال رکھنا ‘‘ شائد ہم ان کے پورے نہیں کر سکے۔
پاک سرزمین کے اندر شائد ہی کوئی گملہ ٹوٹے مگر ایم کیو ایم پاکستان کو کافی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، قومی اسمبلی کے رکن سید علی رضا عابدی اور شبیر قائم خانی نے تو فوری اپنا ردعمل دے دیا اور ایم کیو ایم پاکستان کو’’ تین طلاقیں ‘‘دے دیں، ادھر مکہ مدینہ میں عمرہ کے لیے گئے ہوئے عامر خان نے بھی ’’جھپی ڈالنے‘‘ پروگرام کو عجلت بازی سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پاکستان پہنچ کر تفصیلی بات کریں گے دوبئی تو وہ پہنچ چکے ہیں ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وہ پاکستان لینڈ کر چکے ہوں اور اپنا بیان بھی تفصیلی بیان بھی دے چکے ہوں۔ اس ’’ اتحاد یا بغلگیر شو‘‘ پاکستان اور سندھ کی سیاست خصوصا کراچی کی سیاست پر کس قدر اثرات مرتب کرتا ہے یہ آنے والے ایام میں واضح ہوگا لیکن ایک بات ابھی سے عیاں ہے کہ دونوں جماعتوں کے کارکنان ایک دل ایک ساتھ کبھی نہیں دھڑکیں گے، دونوں اپنی بالادستی قائم کرنے میں کوشاں رہیں گے۔
ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے وجود ختم کرنے کے فیصلے کو کئی ماہ کی ’’سوچ بچار‘‘ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت نہ چھپ سکی کیونکہ اس نئے سفر جس میں دونوں جماعتوں نے واضح کیا کہ ٓائندہ انتخابات نہ تو ایم کیو ایم کے پرچم تلے لڑے جائیں گے اور نہ ہی پاک سرزمین پارٹی کے نام سے انتخابی میدان میں اترا جائے گا ۔ اتنا بڑا فیصلہ سناتو دیا لیکن نام ،پرچم اور منشور کا اعلان بعد میں کرنے کا مژدہ سنایا گیا یہ ایسا ہی تھا جیسے مصطفی کمال نے نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن نام سے متعلق کہا کہ نام بعد میں رکھاجائے گا۔ یہ انڈا نکل آیا اور مرغی بعد میں پیدا ہوئی۔
مصطفی کمال نے پاک سرزمین پارٹی کا کمال بھی اسٹبلشمنٹ مدد و تعاون سے دکھایا تھا اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اکٹھے چلنے کا جمال بھی اسٹبلشمنٹ کے تعاون اور آشیر باد سے دکھایا ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے گگرد آئے دن گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا ، متعدد مقدمات اور سانحات میں فاروق ستار اور ان کے رفقائے کار کے ملوث ہونے کے آثار ظاہر کیے جا رہے تھے، اور ایم کیو ایم کے اندر ارکان پارلیمنٹ ،کارکنان اور عہدیداران میں اضطراب پیدا کیا جا چکا تھا، ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان کو ایم کیو ایم لندن کے کھاتے میں ڈال کر تفتیشی مقامات پر منتظر’’ مولا بخش‘‘ کے سپرد کیا جا رہا تھا اور اس کی خبر بھی کسی کو نہیں پڑتی تھی کہ فاروق ستار کے بھائیوں کو کہاں رکھا گیا ہے۔
فاروق ستار نے اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ ہمارے 300 سے زائد کارکنان کو لاپتہ کیا گیا ہے، جس پر مصطفی کمال نے اسٹبلشمنٹ سے اپیل کی کہ اگر دیگر کو معافی دی اجاسکتی ہے( مصطفی کمال کا اشارہ طالبان کے دہشت گرد احسان اللہ احسان کی جانب تھا،)تو پھر ایم کیو ایم کے بچوں کو ایک موقعہ کیوں نہیں دیا جاسکتا؟ مصطفی کمال کے انداز اور طرز خطابت سے لگتا ہے کہ وہ لاپتہ کارکنان کو معافی لے دیں گے۔
اسٹبلشمنٹ کو ان دونوں دھڑوں کو یکجا کرنے کی ضرورت کا احساس کیوں کر ہوا؟ کہا جاتا ہے کہ چونکہ سندھ خصوصا کراچی میں پی ٹی آئی ایم کیو ایم کا زور توڑنے میں ناکام رہی ہے اور مصطفی کمال بھی ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان کے لیے کشش کا باعث نہیں ثابت ہوئے ۔ یہی سوچ اسٹبلشمنت کو اس اتحاد کی تشکیل پر مجبور کیا۔ ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ اس اتحاد میں مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے صدر آفاق احمد سمیت دیگر بھی شامل کروانے کی کوشش کرے اس بات کے کافی امکانات موجود ہیں کہ اس اتحاد میں سابق آمر جنرل پرویز مشرف کوبھی شریک کردیا جائے اور سربراہی کا تاج بھی اسی کے سر سجادیا جائے۔کراچی کے اقتدار کے لیے نئی صف بندیوں کی تیاریوں میں عامر خان، سید عالی رضا عابدی اور آفاق احمد کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔